آج : منگل ، 09 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 18 گھنٹے 11 منٹ پہلے شائع کی گئی
آپ کے دشمن کا دوست، آپ کا دوست نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ ایسا دعویٰ کرتا ہے تو یہ سراسر جھوٹ اور انتہا کی منافقت ہے۔ اگر آپ اس کے دعوے پر یقین کر لیتے ہیں تو یہ سادہ لوحی، بیوقوفی اور بے بصیرتی ہے۔ پاکستان امریکہ کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی ہے۔ اُس نے ہزاروں میل دور آ کر دو اسلامی ممالک کو تہہ تیغ اور تاراج کر دیا۔ عراق اور افغانستان کی سرزمین ان کے مکینوں پر ہی تنگ کر دی گئی۔ خونریزی کا ایسا آغاز کیا کہ نو دس سال سے انسانوں کا خون بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔ افغانستان کی تباہی اور افغانوں کی خونریزی میں پاکستان پوری طرح ملوث رہا۔ پاکستان سے مراد پاکستانی عوام نہیں حکمران ہیں۔ سابق اور موجودہ۔ پاکستان برادر ہمسایہ ملک کے عوام کے سروں کی فصل کاٹنے کے جرم میں ایسا شریک ہوا کہ امریکہ کی جنگ کی تپش جہاں بھی محسوس ہونے لگی۔ جو چنگاری سے شعلہ اور شعلہ سے الائو بن کر دہک رہی ہے۔ امریکی ڈرون پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔ اس کی ایجنسیوں کے اہلکار پورے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنیوالے پاکستانی ادارے ان پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو ایک فون کال پر معاملات امریکیوں کے نقطہ نظر سے سلجھ جاتے ہیں۔ لیکن کس قیمت پر؟ پاکستان کی خودمختاری اور وقار کی قیمت پر۔ ہمارے اکابرین امریکہ جائیں۔ تو پہلے مرحلے کے طور پر کتا سُنگھائی کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ جبکہ ان کا معمولی اہلکار پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں میں وہاں پاکستانیوں کو سونگھنے والوں کی طرح گھومتا پھرتا ہے۔ ہمارے حکمران جو پروٹوکول جہاں امریکیوں کو دیتے ہیں امریکہ میں عام آدمی اور فوجی وفود کے لئے نہ سہی خود اپنے لئے تو لینے کی کوشش کی۔ برابری کی سطح پر معاملات ہوں تو غیرت ‘ حمیت خودمختاری اور وقار کی علامت، تکبرانہ اور جارحانہ رویے کے مقابلے میں فدویانہ، عاجزانہ اور دست بستہ عرض گزار ہونے کا انداز بے غیرتی اور بے حمیتی ہے۔ اندازہ کر لیجئے ہم امریکہ کے ساتھ خم ٹھونک کر بات کرتے ہیں یا باادب اور باملاحظہ ہوشیار ہوکر۔
امریکہ کے ساتھ اگر پاکستانی حکمرانوں کی دوستی ہے تو انہوں نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ کیا امریکہ نے بھی ایسا کیا؟ بالکل نہیں۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ہے۔ مسئلہ کشمیر بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے لاینحل چلا آ رہا ہے۔ امریکہ مسئلہ کشمیر حل کرانے پر تیار نہیں۔ اس کی تمام تر نوازشات بھارت پر ہیں۔ امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان نے یہ جنگ اپنے گلے ڈال لی۔ اوباما پاکستان کی مدد کرنے اور اسے جنگ کے مہیب بادلوں سے نکالنے کی بجائے بھارت جا بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی معیشت امریکہ کی جنگ کے باعث تباہ ہوئی، اوباما پاکستان کی بجائے بھارت سے وسیع تر تجارتی اور دفاعی معاہدے کر رہے ہیں۔ اس کی جنگ پاکستان لڑ رہا ہے اوباما اعلان کرتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف بھارت اور امریکہ مل کر لڑیں گے۔ امریکہ جس کو دہشت گردی قرار دے کر اس کے خلاف لڑ رہا ہے بھارت کا اس کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں۔ پھر وہ بھارت کے ساتھ مل کر کس دہشت گردی کے خلاف لڑیں گے؟ کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف؟ جو پاکستانیوں اور کشمیریوں کے نزدیک جہاد اور تحریک آزادی ہے۔
پاکستانی حکمران یہود و نصاریٰ کے ایجنڈے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن مفاداتی سیاست اور ڈالروں کے لالچ میں قومی وقار اور خودمختاری کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ ڈالر وصول کرنے والوں کے گھروں میں کہکشائیں اتر رہی ہیں ان کی اولادوں تک کے چہرے ڈالروں کی چمک سے دمک رہے ہیں لیکن عام پاکستانی عذاب میں مبتلا ہے۔ پاکستان کے بازوئے شمشیر زنوں کی زندگیوں کے چراغ بجھ رہے ہیں۔ یہ سبق اور درس اقبال اور قائد نے نہیں دیا تھا۔ نجانے حکمرانوں کا کون قائد ہے کون رہبر و رہنما اور کون آئیڈیل ہے جس کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں۔ کیا ان کا رہبر رہنما لیڈر اور آئیڈیل صرف دھن دولت ہے؟ لیکن یہ آپ کی مستقل ساتھی نہیں۔ کاغذ کی بیساکھی ہے جو دوگام بھی ساتھ نہیں دے سکتی۔ ٹیپو سلطان کا نام اس لئے روزِ روشن کی طرح چمکتا اور دمکتا آ رہا ہے کہ اس نے اصول کی خاطر جان دے دی تھی۔ اس نے ثابت کر دیا شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو جان دینے کی نہیں اپنی بے جا حسرتوں‘ آرزوئوں اور تمنائوں پر قابو پانے اور ذرا سی زبان ہلانے کی ضرورت ہے۔ ’’امریکیو اپنی جنگ یہاں سے کہیں اور لے جائو‘‘۔ یہی خودی اور غیرت کا تقاضا ہے جس کا حضرت علامہ اقبال نے بار بار درس دیا ہے۔
خودی کیا ہے راز درونِ حیات..... خودی کیا ہے بیداریِٔ کائنات
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں..... پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
nice
ReplyDelete