جمعۃالمبارک ، 29 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس میں شک نہیں کہ سیاست کا منتہائے مقصود اقتدار کا حصول ہے لیکن سازشوں، بے اصولی اور چور دروازے سے اقتدار کی منزل پر پہنچنا منہ پر کالک ملنے کے مترادف ہے۔ ملک میں اس وقت ڈیڑھ درجن مسلم لیگیں موجود ہیں سب کے سربراہ وزیراعظم بن سکتے ہیں نہ صدر، کئی کے سربراہ تو اپنی نشست بھی نہیں جیت سکتے اگر متحد ہو جاتے ہیں دریا کی موج کی مانند مقام حاصل کر سکتے ہیں دوسری صورت بیرونِ دریا کچھ نہیں۔ بعض کا رویہ یہ ہے کہ ہم نہیں تو وہ کبھی کیوں! تیسرا فریق بسم اللہ! مسلم لیگوں کے اتحاد کا مطلب یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو الٹا دیا جائے۔ مسلم لیگوں کے اتحاد سے دو جماعتی پارلیمانی روایت قائم اور مضبوط ہو گی۔ ایک دو الیکشنوں میں باقی پارٹیاں بھی پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کے ساتھ انضمام پر مجبور ہو جائیں گی یا سیاست سے کنارہ کشی کر لیں گی۔ البتہ پیپلز پارٹی نے چودھری پرویز الٰہی کو قابو کر کے جو گیم شروع کی ہے اس کا مقصد یقیناً پنجاب حکومت کو الٹانا ہے۔ پیپلز پارٹی نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی کارکردگی سے مایوس ہو کر یہ مشن بابر اعوان کے حوالے کیا ہے، بابر اعوان نے پارٹی کے چند تیتر اور بٹیر قسم کے لوگ اکٹھے کر کے بھی ابتدائی کامیابی حاصل کر لی۔ پیپلز پارٹی نے سلمان تاثیر کو گورنر راج کا کارگر ہتھیار تھمایا تھا وہ پوری جہد اور زور کے باوجود صرف ایک مقدس کو ہی پیپلز پارٹی کی تقدیسِ ثنا خواں بنا پائے تھے، اب گورنر راج کی تاریخ دہرائی گئی تو معاملات ویسے نہیں رہیں گے اب بہت کچھ بدلے گا۔ گو سلمان تاثیر نے کہا ہے کہ صوبے میں تبدیلی نہیں ہو گی ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ قاتل لیگ کہنا محض بیان تھا۔ محض بیان سے کیا مطلب؟ قاتل لیگ زرداری صاحب نے کہا تھا وعدوں اور تحریری معاہدوں کے حوالے سے ان کی سٹیٹ منٹ قوم کے سامنے ہے اس کے سامنے تاثیر کے بیان کو کیوں کر پُرتاثیر سمجھا جا سکتا ہے؟ ۔۔۔ پیپلز پارٹی پرویز الٰہی کے ذریعے ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے، وہ آنکھیں دکھاتی ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی کو اب خود آنکھیں دکھانے کے قابل ہو جائے گی اور پنجاب سے ن لیگ سے چھٹکارہ بھی پانے کی کوشش کرے گی۔ فارورڈ بلاک اور ہم خیال کسی اصولی سیاست کے لئے نہیں اقتدار کی منزل کے حصول کے لئے لاشیں پھلانگنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یونیفکیشن گروپ کو کیا پڑی ہے کہ شہباز شریف کی حمایت جاری رکھے۔ میاں نواز شریف صاحب اپنے غیر اصولی مؤقف پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے مسلم لیگ اور ملک کی کیا خدمت کر رہے ہیں؟ یا پھر میدان میں آئیں رائیونڈ اور لندن میں بیٹھ کر کب تک سیاست کریں گے۔ پاکستان کی سیاست کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوتا ہے تو لندن چلے جاتے ہیں۔ سیاست ٹھنڈی ہوتی ہے تو پاکستان آ کر ٹھنڈ رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ مسلم لیگیں متحد ہوں تو انفرادی طور پر سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہو گا؟ میاں صاحب کی کچن کیبنٹ میاں صاحب کے کان میں اس سوال کا جواب پڑنے نہیں دے رہی اور میاں صاحب خود سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ سیاست کا میدان ہو یا عام زندگی کے معمولات چودھری شجاعت کے کہے کو تحریر میں لانے کی ضرورت نہیں، وہ جو بات کرتے ہیں اس پر پہرہ دیتے ہیں۔ انہوں نے ق لیگ کو متحدہ مسلم لیگ میں ضم کیا ہے تو اس پر قائم بھی ہیں، چودھری شجاعت ہم خیال ہوتے تو بابر اعوان سے پرویز الٰہی نہیں خود ملتے۔ میاں نواز شریف دوبارہ ان کے ہمراہی بننے پر تیار نہیں، وہ ذرا حقائق کا ادراک کریں، اصولی سیاست یہ تھی، وہ کسی صورت جیل سے جدہ نہ جاتے، انہوں نے تو شہباز شریف کو بھی یہ کہتے ہوئے ساتھ گھسیٹ لیا ’’توں مروائیں گا‘‘ میاں صاحب جدہ گئے تو شجاعت اور ساتھیوں کو بھی ان سے جُدا ہونا پڑا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چودھری شجاعت پرویز الٰہی کو کان سے پکڑ کر ان کو پیر پگاڑہ کے پاس لے جائیں، شہباز شریف بھاء جی سے گزارش کریں، غصہ تھوک دیں پیر صاحب خود ان کے پاس آنے کو تیار ہیں ان کی پذیرائی کریں۔ متحدہ مسلم لیگ میں ہی سب دھڑوں کی بھلائی ہے۔ مسلم لیگ گذشتہ چار انتخابات سے ملک کی مقبول ترین جماعت ثابت ہو رہی ہے لیکن باہم دست و گریباں ہونے کے باعث کھیر کوئی اور کھا رہا ہے۔ چودھری ناصر محمود ایڈووکیٹ کے جمع کردہ اعداد و شمار شاید لیگی قائدین کے لئے چشم کشا ہو جائیں۔
قومی انتخابات مسلم لیگ پی پی
1993 39.46 فیصد 37.85 فیصد
1997 45.95 فیصد 21.90 فیصد
2002 35.10 فیصد 25.80 فیصد
(ن+ ق) 2008 45.00 فیصد 30.60 فیصد
(ن+ ق + ف)
موجودہ پارلیمنٹ میں بھی موجود سیاسی پارٹیوں میں سے مسلم لیگ کی سیٹیں سب سے زیادہ ہیں۔
موجودہ قومی اسمبلی
مسلم لیگ (ن+ ق + ف) پی پی
149 نشستیں 126 نشستیں
موجودہ سینٹ
مسلم لیگ (ن + ق + ف) پی پی
29 نشستیں 27 نشستیں
No comments:
Post a Comment