بدھ ، 02 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
دھند کے بادلوں سے بارانِ رحمت کی توقع حماقت اور پاگل پن ہے۔ دھند تو دن کے اجالے بھی چھین کر سفید تاریکی طاری کر دیتی ہے۔ حادثات ہوتے ہیں، سر چہرہ اور لباس آلودہ ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہم پر دھند کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ یہ کہیں اور سے نہیں آئے ہم خود لائے ہیں۔ آمریت سے چھٹکارا سلطانیٔ جمہور کے دور دورہ کیلئے حاصل کیا تھا۔ امید تھی آمریت کی بھٹی میں جل کر ہماری قیادتیں کندن اور عزم کے کوہِ گراں بن چکی ہوں گی۔ ان سے پالا پڑا تو کندن میں کھوٹ نظر آیا، جن سے اپنے عزم پر چٹان کی طرح ڈٹ جانے کی توقعات تھیں وہ محض دھوئیں کے پہاڑ ثابت ہوئے۔ ان کو سامراج کے مذموم عزائم کے سامنے فولادی دیوار بن جانا چاہئے تھا لیکن ان کی حیثیت اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر تار عنکبوت سے زیادہ نہ رہی۔ بحرانوں میں گھری قوم کے چہرے پر زردی، مایوسی، پریشانی اور خود اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل تاریک کرنے کی پشیمانی کی لکیریں ہیں۔ جن سے کہکشائیں اتارنے کی امید تھی انہوں نے عام آدمی کے آنگن میں خزائیں بکھیر دیں۔ یہ طبقہ لوگوں کے مسائل سے بے نیاز، ان کے چمکتے دمکتے گلنار اور پربہار چہرے دنیا پر ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں خوشحالی کا دور دورہ ہے، دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ ان کا کردار دیکھ لیں اقوال و افعال دیکھ لیں، ان کے چہروں پر لوگوں کے دکھ درد کا کوئی ملال اور کرب نہیں ہے۔
وزیراعظم صاحب دو روز قبل اپنے شہر گئے۔ بہت باتیں کیں، بہت سے سوالات اٹھائے۔ ایسے سوالات اٹھائے کہ ہر سوال میںجواب موجود تھا۔ فرمایا ’’ملک کے اندر کوئی بحران نہیں ہے۔ معیشت پر دبائو ضرور ہے، پاکستان کے حالات کا موازنہ تیونس اور مصر سے نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ وزیراعظم نے یہ بات پارلیمنٹ میں کی ہوتی تو شاید کوئی پوچھ لیتا حضور ملک میں کونسا بحران ہے جو نہیں ہے؟ معیشت پر صرف دبائو نہیں تو روزانہ اڑھائی ارب روپے کے نوٹ چھاپنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟ تیونس اور مصر سے موازنہ دو صورتوں میں نہیںکیاجا سکتا۔ مہنگائی، کرپشن، بدامنی، بیروزگاری تو اقدار مشترک ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہاں طویل عرصے سے آمریت جبکہ ہمارے ہاں آج جمہوریت ہے۔ دوسرا فرق یہ کہ تیونس اور مصر میں امریکہ کی بیجا مداخلت ہے، ہمارے ہاں امریکی مداخلت ’’بیجا‘‘ کی حدیں کراس کر چکی ہے۔ حکمران خود کو امریکہ کی غلامی میں دے چکے ہیں… وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ادارے مضبوط ہوں تو کرپشن کافی کم ہو جائے گی۔ اب بتائیے ادارے کس نے اور کب مضبوط کرنے ہیں؟ مزید کہا ’’کرپشن کے الزام ہر جمہوری حکومت پر لگتے رہے وہ ڈکٹیٹر جنہوں نے 30 سال حکومت کی ان کے بارے میں کسی نے کہا کہ وہ کرپٹ تھے‘‘۔ یہ بات کوئی اور کرے تو کرے وزیراعظم صاحب کیوں کریں؟ جن کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔ وہ عمل کریں، گرفت کریں، تمام ڈکٹیٹرز سے ایک کمشن بنا کر حساب چکتا کریں۔ موصوف صدر محمد ضیاء الحق کے تو خود بھی ساتھی رہے ہیں۔ یہ کوئی طعنے والی بات نہیں۔ اب آمریت کا ساتھ دینے سے تائب ہو چکے ہیں تو اچھی بات اوربہتر روایت ہے۔ پرویز مشرف کو کس کھاتے میں چھوڑا ہوا ہے؟ اگر کسی اور نے ڈکٹیٹروں کو کرپٹ نہیں کہا تو آپ کہہ کر اس سے کرپشن کا مال نکلوائیں، مشرف کو واپس لائیں، عدالتی کٹہرے میں کھڑا کریں۔ مشرف پر ہاتھ ڈالنے سے پر کیوں جلتے ہیں؟ باتیں نہ بنائیں کچھ کر کے دکھائیں۔ لیکن ایسا اس لئے ممکن نہیں کہ کسی کرپٹ پر ہاتھ ڈالنے کیلئے اپنا دامن صاف ہونا چاہئے، بدقسمتی سے ایسا نہیں! آج جس قدر کرپشن کی داستانیں عام ہیں انسان سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ کھربوں کی بدعنوانی، بے ایمانی اور بددیانتی ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ کیس سن سن کر اور لوٹ مار کے طریقے دیکھ کر زچ ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ جس کو سزا سناتی اور برطرف کرتی ہے حکومت اس کو پہلے سے بھی بڑے عہدے سے نواز دیتی ہے۔ بات خلوص اور نیک نیتی کی ہے جس کاوجود ہی نہیں۔ اب آپ خود اندازہ کیجئے دھند کے بادلوں سے ابرِ رحمت کی امید کیونکر رکھی جائے؟
No comments:
Post a Comment