جمعۃالمبارک ، 11 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
آگ اور پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں، لیکن جب آگ لپکتی جھپٹتی، بے قابو ہوتی اور پانی بپھرتا ہے تو انسان انکی لپیٹ اور لہروں کی زد میں آجاتا ہے یا اپنے اثاثے اور عزیزوں کو آگ اور پانی کی نذر ہوتے بے بسی سے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ لاہور میں آگ کی لپیٹ میں ایک پلازہ آیا۔ بروقت اقدامات نہ ہونے کے باعث آگ پھیلتی چلی گئی۔ چار پلازے اور پانچ گھر تو سرے سے اپنا وجود ہی برقرار نہ رکھ سکے تاہم 14 پلازوں اور بہت سے گھروں میں شعلے سب کچھ خاکستر کرگئے۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق 600 دکانیں اور گودام تباہ ہوئے۔ تباہ ہونیوالے اس علاقے سے 20 ہزار افراد کا روزگار وابستہ تھا۔
اندرون لاہور مارکیٹوں میں یہ آتشزدگی کیا تھی، آگ کا دریا تھا، آگ کا قلزم تھا جس میں کسی کی دکان جل رہی تھی، کسی کا مکان، کسی کا جسم و جان جل رہا تھا۔ کسی کی جان کسی کے جذبات جل رہے تھے، کسی کا زمین آسمان او سارا جہان جل رہاتھا۔ پاکستان میں کاروبار کتنا مشکل ہے؟ اسکا آپکو اندازہ ہے۔ لوگ گھر بار، زمین جائیداد اور زیورات بیچ کر کاروبار کرتے ہیں۔ کوئی عزیزوں، رشتہ داروں سے قرض لیتا، کوئی بینک سے اور کوئی سود خور ساہو کاروں سے۔ پھر جب ایسی آفت آئے کہ یک بیک انسان اپنی بربادی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ اسکا اندازہ کرنے کیلئے اپنے آپکو اس تاجر کی جگہ کھڑا کرکے سوچئے جس کی آنکھوں کے سامنے 32 گھنٹے تک آگ شعلہ بار تھی۔ اسکی ایک نظر الائو کی طرف دوسری ریسکیو کی کھٹارہ گاڑیوں، آگ بجھانے کے غیرمعیاری آلات کی طرف اور ہاتھ بارگاہِ رب العزت کے سامنے اٹھے اور سر جھکا ہوا تھا۔ زبان پر ’’خدایا رحم، خدایا کرم‘‘ کی آواز آنسوئوں اور سسکیوں کے درمیان آرہی تھی۔ لیکن جو ہوا اور 32 گھنٹے تک مسلسل ہوتا رہا یہ بہت سوں کی شامتِ اعمال کا ہی نتیجہ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ پلازے غیرقانونی طور پر تعمیر کئے گئے تھے۔ آتشزدگی کی جگہ پر تنگ گلیوں کے باعث ریسکیو آپریشن میں دشواریاں پیش آئیں۔ غیرقانونی پلازے راتوں رات زمین سے نہیں اُگے۔ دکان کے باہر سٹول رکھ دیا جائے تو متعلقہ عملہ سٹول اٹھوانے نہیں اسے مستقل وہاں پر رکھنے کیلئے مُک مُکا کرنے چلا آتا ہے۔ سڑک پر گاڑی یا موٹر سائیکل کھڑی کردی جائے تو اسے اٹھانے والا محکمہ بھی موجود ہے۔ غیرقانونی پلازے بنانیوالوں سے زیادہ بنوانے والے محکمے مجرم ہیں۔ کاروبار کیا یہ سوچ کر کیا جائے کہ یہاں فائر بریگیڈ کی گاڑی پہنچ سکتی ہے یا نہیں؟ دکانداروں پر سو طرح کے ٹیکس لاگو ہیں۔ انکو تحفظ بھی فراہم کیا جانا چاہئے۔ دنیا ترقیوں کے آفتاب و ماہتاب کو چھو رہی ہے۔ ہمارے ہاں آگ پر قابو پانے والی گاڑیاں اور آلات اپنا قدیم اور بوسیدہ ’’کلچر و تشخص‘‘ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ خوابیدہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ اپنا سسٹم جدید خطوط پر استوار کریں۔ لاہور، کراچی، ملتان، راولپنڈی، پشاور، حیدر آباد، فیصل آباد اور کوئٹہ جیسے شہروں میں مکان اور دکان دو فٹ کی گلی اور مین روڈ سے پانچ سو گز دور ہے تو بھی وہاں پر آسانی سے ریسکیو آپریشن ہوسکے۔ یہ حکام کی نااہلی، نالائقی، غفلت اور کوتاہی سے جس کا غیرقانونی پلازوں اور تنگ گلیوں کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
زمین بوس ہونیوالے گھر، دکانیں اور پلازے دنوں میں تعمیر ہوسکتے ہیں نہ مرمت اور پھر ان میں رہنے اور کاروبار کرنیوالوں کا سب کچھ لٹ گیا۔ گو حکومت پنجاب نے جلد داد رسی کا وعدہ کیا ہے لیکن یہ کام جنگی بنیادوں پر فوری اقدامات کا متقاضی ہے۔ متاثرہ تاجر بھیک نہیں مانگتے، اپنے نقصان کا ازالہ چاہتے ہیں۔ ایک فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھے۔ دکھی لوگوں کو اپنے روئیے سے مزید دکھی نہ کرے۔ تاجر تنظیمیں بھی ماتھے پر خون لگا کر شہیدوں کی صف میں شامل ہونیوالوں سے ہشیار اور خبردار رہیں۔ خدا کرے آگ کسی کے تن کو لگے نہ جاں کو، کسی کے اثاثوں کو لگے نہ ساماںکو، کسی کے گھر کو لگے نہ آشیاں کو۔
No comments:
Post a Comment