بدھ ، 09 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ویانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنٰی حاصل تھا جس کا امریکہ نے قطعاً احترام نہیں کیا۔ امریکی فوجیوں نے انہیں پشاور سے اپنی حراست میں لیا۔ تشدد کا نشانہ بنایا، جنوری کے یخ بستہ موسم میں چھُری سے کپڑے پھاڑ کر برہنہ کر دیا پھر اسی حالت میں ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر افغانستان لے گئے۔ ملا ضعیف نے کسی کو قتل کیا نہ اغواءنہ ہی ان پر کسی قسم کا کوئی مقدمہ تھا۔ وہ طالبان حکومت کے سفیر تھے بس یہی ان کا قصور ٹھہرا۔ اتنا بڑا قصور کہ امریکہ نے عالمی قوانین کی بھی پروا نہ کی۔ آج امریکہ کے لئے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ امریکہ اسے سفارتکار ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے اس کی فوری رہائی کے لئے بے تاب اور بے قرار ہے۔ اتنا بے چین کہ کیری لوگر بل کی سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد بھی دو پاکستانیوں کے قاتل کی رہائی سے مشروط کر دی ہے۔ حکومت اب دو پاٹوں کے درمیان ہے۔ ایک طرف امریکہ سرکار دوسری طرف اپنے عوام امریکہ کے حکم کو قانون مان لیتے ہیں عوام کے بے قابو ہونے کا خطرہ، اپنے قوانین پر عمل کرتے ہیں تو امریکہ کی یلغار اور تیز دھار تلوار نظر آ رہی ہے۔ پاکستانی عوام دو سال بعد حساب لیں گے۔ قاتل کے پروردہ موقع پر حساب بے باک کر دیں گے۔ سب سے بڑا نقصان امداد کی ترسیل پر پابندی ہے جس سے جان جاتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے جو وہ فیصلہ کرے اس کا عمل ہو گا۔ دیکھئے حکومت کب تک اس موقف پر قائم رہتی ہے۔ امریکہ دنیا میں کئی ممالک میں جنگیں لڑ رہا ہے۔ کئی ممالک کو آپس میں لڑا رہا ہے۔ کئی میں بغاوتیں کھڑی کرا رہا ہے، کئی ممالک کے حصے بخرے کرا دیا ہے اتنی مصروفیت کے باوجود اس کی پوری توجہ ڈیوس کی رہائی پر ہے۔ رہائی کی صورت میں مشتعل پاکستانی رہائی کے ذمہ داران پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان کو گلیوں اور بازاروں میں گھسیٹتے ہیں۔ امریکہ کو اس کی پروا نہیں۔ اسے بس ڈیوس چاہئے۔ ابھی، کھڑے پیر۔ ڈیوس کو پھانسی نہیں لگنے لگی کہ امریکہ رہائی کے لئے اتنا مضطرب ہے۔ ابھی تو ملزم ریمانڈ پر ہے۔ مقدمہ چلنا ہے ہو سکتا عدالت اسے بے گناہ قرار دے دے۔ مجرم ثابت ہونے پر پھانسی کی سزا سنائی جا سکتی ہے لیکن ہماری حکومتیں ایسے قاتلوں کے لئے بڑی فراخ دل ثابت ہوئی ہیں۔ کشمیر سنگھ مستند دہشتگرد تھا۔ اس نے نہ صرف پورے پاکستان کی فضا میں آگ اور بارود بکھیر دیا بلکہ وہ اکیلا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا 60 فیصد سے زیادہ ذمہ دار تھا۔ اسے سزائے موت ہوئی کئی سال تک وہ موت کی کوٹھڑی میں رہا بالآخر اسے وزیر انسانی حقوق انسانی ہمدردی کی بنا پر پورے پروٹوکول کے ساتھ اس کے گھر چھوڑ آئے۔ سربجیت سنگھ نے بم دھماکوں میں درجنوں پاکستانیوں کی جان لی۔ سینکڑوں کو معذور کیا۔ اسے سزائے موت سنائی جا چکی ہے اس پر ہنوز عملدرآمد نہیں ہوا۔ شاید کسی وزیر انسانی حقوق کا انتظار ہے۔ ریمنڈ ڈیوس، کشمیر سنگھ اور سربجیت کی طرح دہشتگرد نہیں ہے۔ اس سے تو معصومیت میں دو پاکستانی قتل ہو گئے۔ امریکہ پاکستانی حکمرانوں کی نازک پوزیشن کا احساس کرے ان کی رحمدلی پر اعتبار کرے۔ ڈیوس کو مہمان کی طرح رکھا گیا ہے۔ اس کا ٹرائل ہونے دے۔ سزا ہوئی تو کشمیر سنگھ کی طرح ڈیوس کو بھی معاف کیا جا سکتا ہے۔ ایک مقتول کی اہلیہ نے خودکشی کر لی باقی دو چار بھی کر لیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم پاکستانیوں کا خون بڑا سستا ہے۔ وہ ڈرون حملوں میں بہے یا ڈیوس کی بندوق سے، ایک ہی بات ہے۔
ایک صاحب نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر حاکموں کے بیٹے امریکی کے ہاتھوں قتل ہو جاتے تو پھر بھی کیا ان کا رویہ ایسا ہی ہوتا جیسا اب ہے؟ یعنی وہ رہائی کے لئے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا جواب ہے۔ ہاں، بالکل ایسا ہی ہوتا۔ عوام اور روایتی حکمران کی سوچ میں فرق ان کے احساسات و جذبات میں فرق۔ روایتی حکمران کی زندگی کا ایک ہی مقصد اقتدار اور صرف اقتدار، ہر صورت میں اقتدار اس کے حصول کے لئے باپ کی لاش گر جائے یا بیٹے کی میت اٹھ جائے۔ ماضی قریب میں جھانکیں یا ماضی بعید کو کھنگالیں بہت سی مثال سامنے آ جائیں گی۔ حکمران، حکمران ہوتا ہے۔ ماضی قریب کا ہو یا بعید کا، حال کا ہو یا مستقبل کا۔ اگر اقتدار کے لئے انسان اس حد تک جا سکتا ہے تو ڈیوس کی رہائی تو مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے۔ روایتی حکمران ملک کی عزت بحال کرا سکتے ہیں نہ قوم کا وقار، ان کی ڈکشنری میں غیرت حمیت خودداری عظمت کا لفظ ہی نہیں ہوتا۔ آج ہم ذلت و رسوائی کی جس پستی میں آ گرے ہیں اس سے ٹیپو جیسے سلطان اور قائد جیسے حکمران ہی نکال کر اوجِ ثریا تک پہنچا سکتے ہیں۔ ایسے نابغہ روزگار زمین سے اگیں گے نہ آسمان سے ٹپکیں گے انہی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ضمیر جاگ جائیں تو یہی ٹیپو اور قائداعظم کے جاں نشیں بن سکتے ہیں۔ (ختم شد)
No comments:
Post a Comment