جمعۃالمبارک ، 04 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
مصر میں 1942ء میں پیدا ہونے والے بچے کا نام محمد مصطفی رکھا گیا۔ کتنا بہترین اور خوبصورت ترین نام ہے۔ والدین نے دعائیں کی ہونگی کہ محمد مصطفی ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ان کا اور ملک کا نام روشن کرے۔ یہ کبھی خواہش نہیں کی ہوگی کہ مسلمانوں کی لاشوں پر اپنے محلات تعمیر کرے۔ اسلامی ممالک کو رسوا کر کے انعام و اکرام حاصل کرے اور بالآخر ملک کا بادشاہ بھی بن جائے۔ یہ وہی محمد مصطفی ہے جس کے نام کے ساتھ البرادی جڑا ہوا ہے۔ البرادی اقوام متحدہ کے ادارے آئی اے ای اے کے 1997ء میں ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے۔ یہ عہدہ 5 سال کیلئے ہوتا ہے۔ البرادی امریکہ کے ایماء پر آئی اے ای اے کے ڈی جی بنے اور امریکہ کی آشیرباد سے ہی ملازمت میں توسیع در توسیع پاتے 12 سال نکال گئے۔ ایٹمی معاملات کے حوالے سے البرادی کی ٹیڑھی نظریں ایران اور پاکستان پر رہیں، اسرائیل کا ایٹمی پروگرام کبھی نظر نہیں آیا۔ امریکہ نے جو کہہ دیا اس پر فرض عین سمجھ کر عمل درآمد کیا۔ امریکہ کی کاسی لیسی اور حاشیہ برداری کے انعام میں ان کو اور آئی اے ای اے کو مشترکہ طور پر 2005ء میں نوبل پرائز دیا گیا۔ البرادی امریکہ کے لئے ایسا گھوڑا ہے جس پر بغیر کاٹھی اور لگام کے بھی سواری کر سکتا ہے۔ اب امریکہ نے البرادی کو حسنی مبارک کا متبادل سمجھ کر لاکھوں مظاہرین کا قائد بنا دیا ہے۔ حسنی مبارک بھی امریکہ کی خوشامد اور کاسی لیسی میں کچھ کم نہیں تھے تاہم البرادی حسنی سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ البرادی کی برسوں امریکہ نے اپنی نہج پر تربیت کی۔ مصر میں لوہا بھی خود گرم کیا اور البرادی کی صورت میں چوٹ لگا دی۔شاید امریکہ کو اتنی زیادہ اور جلد کامیابی کی توقع نہیں تھی۔ لوگ کچھ زیادہ ہی مشتعل ہو گئے جو خود امریکہ کیلئے خطرہ ہیں۔ ایران کی طرح … یہاں بھی امریکہ شہنشاہ ایران کو راہ راست پر رکھنے کیلئے محدود سطح پر مظاہرے کرانا چاہتا تھا لیکن امریکہ کی پھینکی ہوئی چنگاری شعلہ بنی پھر الائو بن کر شاہ ایران کی بادشاہت کو بھسم کرتی ہوئی امریکی مفادات کو بھی جلا گئی۔
امریکہ ابھی تک اس صدمے سے نکل سکا نہ اس تجربے کو بھلا سکا ہے۔ اس کے اندر متواتر ایرانیوں کے خلاف انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ اب اسے مصر میں بھی کم و بیش ایران جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ وہ مصر میں تبدیلی چاہتا تھا لیکن حالات انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں، اسلامی انقلاب کی طرف! مصر میں اخوان المسلمین بڑی مضبوط اسلامی تنظیم ہے۔ اس کی تاریخ رہی ہے کہ وہ دین مصطفوی کی خاطر جان دینے اور بامر مجبوری جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اخوان المسلمین شعلہ فشاں اور تلاطم خیز صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے۔ البرادی نے کہا ہے کہ حسنی فوری طور پر اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ اگر وہ اس مطالبے کے آگے سر تسلیم خم کر لیتے ہیں تو کیا اقتدار البرادی کے سپرد کر دیا جائے گا؟ اگر ایسا ہو گیا یا جب بھی اقتدار البرادی کو ملا، کسی بھی صورت میں۔ اخوان المسلمین البرادی کو تین دن بھی اقتدار میں نہیں رہنے دے گی۔ اخوان المسلمین اسلامی انقلاب کی پوری تیاری کئے ہوئے ہے۔ ویسے بھی شفاف انتخابات ہوئے تو اخوان کے پائے کی مصر میں کوئی دوسری پارٹی نہیں ہے۔ اس کا ادراک امریکہ اور اسرائیل کو بھی ہے۔ اب حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے سے امریکہ اور اسرائیل دونوں پریشان ہیں لیکن تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ حسنی مبارک اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں تو امریکہ اور اسرائیل حسنی مبارک کے خلاف مصریوں کے اشتعال کو ٹھنڈا کرنے کی تدبیر کر رہے ہیں۔ اوباما نے فرینک وزنر کو حسنی مبارک کے پاس بھیج کر پیغام دیا ہے ستمبر کے انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ حسنی مبارک بھی کچھ نہ کچھ عزت بچا کر لے جانا چاہتے ہیں انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ ستمبر 2011ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ البرادی حسنی مبارک کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے آسٹریا سے مصر پہنچے تو ان کو نظربند کر دیا گیا لیکن وہ سورج گرہن کے دورانئے جتنا بھی نظربند نہیں رہے کہ امریکہ نے رہا کرا دیا۔ امریکی سفیر کی البرادی سے ملاقاتوں پر کوئی قدغن نہیں۔ مصر میں حالات کو بگاڑنے میں امریکہ کا م کچھ ہاتھ ضرور ہے لیکن مصری کسی بہکاوے پر سڑکوں پر نہیں آئے نہ کسی بہلاوے پر، اب تبدیلی سے کم گھروں کو واپس نہیں جائیں گے۔ معاملات اسلامی انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کیلئے ناقابل برداشت اور خوفناک بھی ہے۔ (جاری ہے)
No comments:
Post a Comment