ہفتہ ، 19 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
اس میں کوئی شک نہیں کہ چادر دیکھ کر پاﺅں پھیلائے جائیں تو انسان بہت سے مسائل سے بچ جاتا ہے۔ پاکستان میں سرکاری طور پر کم از کم تنخواہ سات ہزار مقرر ہے۔ لاکھوں لوگ ایسے بھی ہیں جن کو تین ہزار میں بھی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ پوری کوشش کے باوجود بھی کچھ لوگ چادر کے مطابق پاﺅں پھیلانے پر قادر نہیں ہیں۔ محدود آمدنی میں آپ خاندان کی خوراک، صحت، تعلیم کی ضروریات بمشکل پوری کرتے ہیں۔ شادی پر اخراجات میں گریز کیا جاسکتا ہے، مرگ پر جانا لازم ہے۔ ہر شادی سے بھی گریز ممکن نہیں۔ آسان حل قرض سے کام چلانا ہے۔ قرض تو لیا ہی واپس دینے کیلئے جاتا ہے۔ قرض کا مرض لگ جائے تو زندگی اجیرن، بدنامی مقدر بن جاتی ہے۔ جو لوگ نوکری کے ساتھ ساتھ اوور ٹائم لگاتے ہیں انکی زندگی قدرے آسان اور بعض صورتوں میں قابل رشک بھی ہوجاتی ہے۔ اوور ٹائم اپنے ہی ادارے میں کیا جائے تو کہیں تنخواہ کے حساب سے ڈیڑھ گنا، کہیں دو گنا اور تین گنا معاوضہ بھی ملتا ہے۔ بعض ملازمتیں ایسی ہیں جہاں اوور ٹائم کا تصور ہی نہیں، لیکن ضرورت ایجاد کی ماں کے مطابق اگر کچھ کرنے کا ارادہ ہو تو سلیقہ و قرینہ بھی آجاتا ہے۔
بہت پہلے ملیر کینٹ ابھی اتنا پھیلا نہیں تھا۔ ایم ای ایس کے ایس ڈی او کو بھی آمدن اور اخراجات میں تفاوت کا سامنا تھا۔ وہ اس فرق کو پورا کرنے کیلئے شام کو مونگ پھلی، چلغوے، چنے اور دیگر ایسی ہی اشیاءکے پیکٹ بنا کر قریبی سینما لے جاتے۔ آخری شو کے وقفے تک ان کا تمام سامان بک جاتا۔ ایس ڈی او بڑا سرکاری عہدہ ہوتا ہے۔ چاہے تو شام تک لاکھوں روپے کمالے لیکن ایسی کمائی نارِ جہنم ہے اور اس حرام کمائی سے اولاد کی پرورش کی جائیگی تو اس سے ”حرامیت“ کے سوا کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ ان ایس ڈی او صاحب کی اولاد نے جائز کمائی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سب کے سب اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔کام، کاروبار اور اوور ٹائم یا سائیڈ بزنس کیلئے تھوڑی سی عقل اور بہت سی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوج میں اوور ٹائم اور سائیڈ بزنس کا تصور بھی نہیں ہے لیکن یہاں بھی لوگ بڑے طریقے سے اپنے معاملات درست رکھتے ہوئے بہت کچھ کرلیتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو کوئٹہ، پشاور یا کراچی میں تعینات ہیں۔ وہ فیصل آباد سے کپڑا خرید کر لے جاتے ہیں یا انکے عزیز بھجوا دیتے ہیں جن کو ضرورت ہوتی ہے، انکو مارکیٹ سے کم نرخوں پر مل جاتا ہے۔ پشاور کے رہنے والے چائے کی پتی اور قہوے وغیرہ سے اپنی روزی میں جائز اضافہ کرتے ہیں۔ چاول پر بڑے شہروں میں تیس سے چالیس روپے کلو منافع بھی لیا جاتا ہے۔ یہ کسی چھاﺅنی یا عام علاقے میں کوئی فوجی یا سویلین پانچ روپے کلو منافع پر فروخت کرے تو ہوسکتا ہے کہ ایک دن میں ایک ٹرک تک بک جائے۔
ہمت کی اس لئے ضرورت ہوتی ہے کہ آپ پہلے گاہک تلاش کریں جو آسانی سے مل سکتے ہیں۔ ایک نیم فوجی ادارے کے اہلکار کی رشک بھری داستان سنئے۔ یہ پشاور سے چائے کی پتی لاہور لاکر چند دکانوں کو سپلائی کرکے خوش تھا۔ اسکا تبادلہ کراچی ہوا تو پریشان ہوگیا لیکن ہمت نہیں ہاری۔ کراچی سے وہ گارمنٹس کا سامان بھجوانے لگا۔ یہ سلسلہ چل نکلا تو تبادلہ گوادر ہوگیا۔ پریشانی نے ایک مرتبہ پھر گھیرا لیکن خدا کا نام لے کر وہاں بھی قسمت آزمائی کی۔ پراپرٹی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ایک بڑے صنعتکار کو وہاں کچھ زمین کی ضرورت تھی۔ اس نے پراپرٹی ڈیلر سے ملوا دیا۔ سودا طے ہوا تو پراپرٹی ڈیلر نے ڈیڑھ لاکھ روپے کمیشن دیدیا اور خریدار نے چند ماہ بعد گوادر میں ہی کاروبار شروع کیا تو اس نوجوان کو ڈیڑھ لاکھ تنخواہ پر انچارج مقرر کردیا۔ دو سال بعد اس نے مالک سے اجازت چاہی اور اپنا کاروبار شروع کردیا اور آج اسکا لاہور، کراچی، ملتان اور راولنپڈی میں اربوں کا بزنس ہے۔ ضروری نہیں کہ کاروبار کروڑوں اور اربوں سے ہی شروع ہو .... سرکاری محکمے کا نائب قاصد گھر سے دو کلو دودھ شہر میں دکان پر لے جا کر فروخت کر دیتا۔ ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا تو پڑوسیوں سے بھی لے کر جانے لگا۔ اس نے دیانت کا دامن نہ چھوڑا شہر میں خالص دودھ کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ڈیمانڈ اتنی ہوئی کہ بات دس من تک جا پہنچی۔ اب سارا کام اس کے ملازم کرتے ہیں۔ آپ آغاز تو کریں، اللہ نیک نیتی اور خلوص سے شروع کئے کاروبار میں برکت ضرور ڈالتا ہے۔ رزقِ حلال کیلئے یہ کائنات بہت وسیع ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھال کر اسے محدود قرار دیدیں تو اس میں خالقِ کائنات کا کیا قصور....! ذرا سوچئے، غور کیجئے، آپ پر بہت سے در وا ہوجائینگے۔ حالات کو اپنی بدقسمتی قرار دیکر جان دے دینا کوئی بہادری نہیں۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment