ہفتہ ، 05 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
سامراجی اور استعماری قوتیں دنیا کی سیاست کو اپنے تابع رکھنا چاہتی ہیں۔ امریکہ ان قوتوں کا سرخیل ہے۔ دیرپا نمبرداری کے لئے انصاف اور بلاامتیاز انصاف کی فراہمی لازمی ہے۔ جہاں انصاف ہو گا وہاں ظلم نہیں ہو سکتا۔ ظلم کی ابتداءاور انتہا ناانصافی سے شروع ہو کر ناانصافی پر منتہی ہوتی ہے۔ اگر انصاف نہیں تو یہ نمبرداری نہیں تھانیداری ہے، بدترین تھانیداری۔ سوویت یونین کے بکھرنے اور اجڑنے کے بعد امریکہ نے واحد سپر پاور کی صورت میں دنیا کے تھانیدار کا روپ دھار لیا۔ اِس کی مرضی کہ زیتون کی شاخ پر الو کو بٹھا دے یا غریب افغانوں اور بے کس عراقیوں کے منہ سے لقمہ چھین کر کتوں کو کھلا دے۔
دنیا میں مسلمانوں کے دو ہی بڑے سلگتے ہوئے تنازعات ہیں۔ مسئلہ کشمیر اور تنازع فلسطین۔ امریکہ چاہے تو دونوں تنازعات دنوں میں طے کرا سکتا ہے لیکن وہ ہر مسئلے تنازعے اور معاملے کو صلیبی اور صہیونی نظر سے دیکھتا ہے۔ کروسیڈ اور صہیونیت میں مسلمانوں کا وجود گوارہ نہیں۔ کشمیر اور فلسطین میں ہنود و یہود 6 دہائیوں سے مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ دونوں خطوں میں مسلمانوں کو اپنے ہی گھروں میں غلام بنا دیا گیا۔ آزادی کے لئے لاکھوں کشمیری اور فلسطینی اپنے خون کا خراج پیش کر چکے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بدنِ مسلم پر قبا محفوظ ہے نہ بنات پاکیزہ کے سروں پر آنچل اور ردا۔ پوری دنیا یہ ظلم دیکھتی ہے لیکن لاتعلق ہے۔ مجرم وہ ہیں جو کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہیں مگر خاموش ہیں۔ صلیبیوں اور صہیونیوں کا کردار سب کے سامنے ہے اہل اسلام کو کیا ہو گیا؟ یہ کیوں متحد نہیں، متفق نہیں، بکھرے ہوئے، الجھے ہوئے ہیں۔
بش نے افغانستان پر یلغار کرتے ہوئے اسے کروسیڈ قرار دیا گویا حق اور باطل کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی۔ پاکستانی حکمرانوں کو دونوں میں سے ایک کی طرف جانے کا آپشن دیا گیا۔ یہاں فوجی آمر کی غیرت بے رنگ، حمیت بے ڈھنگ اور ضمیر کی آواز بے ترنگ ہوئی۔ کسی سے صلاح لی نہ مشورہ کیا۔ دل کی آواز کو اقتدار کی وِل نے دبا دیا۔ ڈالروں کی جھنکار نے ضمیر کو سلا دیا جس فوجی نے وطن کے استحکام اور سلامتی کی قسم کھائی تھی وہ اندر سے مر گیا۔ ایک کلمہ گو نے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے خون کا سودا کر لیا۔ حق و باطل میں سے باطل کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر کئی اور مسلم ممالک بھی مشرف کی امامت میں امریکہ رو ہوتے چلے گئے۔ عالمی تھانیدار نے کشمیر اور فلسطین میں بہتا ہوا خون کیا بند کرانا تھا افغانستان اور عراق میں اس سے کئی گنا زیادہ خون بہا دیا گیا۔
آج عالمِ اسلام صلیبیوں اور صہیونیوں کی تعزیب اور تخریب کی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ انڈونیشیا میں فسادا کرا کے صلیبی ریاست ”شمالی تیمور“ کھڑی کر دی اب سوڈان میں جنوبی سوڈان کا تخم تخریب بو دیا ہے۔ یہاں ریفرنڈم ہو چکا ہے ایک نئی صلیبی ریاست کونپلیں اور شاخیں نکال رہی ہے۔ چند ہفتے میں ایک تناور خاردار اور بے سایہ و بے ثمر درخت کی صورت میں مسلمانوں کے نخلستان میں موجود ہو گی۔
امریکہ کی طرف دیکھتے رہے تو قیامت تک مسئلہ کشمیر اور تنازع فلسطین طے ہونے کا نہیں۔ جنوبی سوڈان میں جمی کارٹر اور سینیٹر کیری لوگر نے ریفرنڈم کی نگرانی کی۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود استصواب کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ کیوں؟ جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم اس لئے کرا دیا گیا کہ عیسائی ریاست کو وجود میں لانا تھا۔ کشمیر میں اس لئے نہیں کہ یہاں مسلمانوں کو کچھ ریلیف ملنے والا ہے۔ مسلمانوں کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں۔ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا!
آج یوم یکجہتی کشمیر کا تقاضا ہے کہ کشمیری اور پاکستانی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اتحاد اتفاق اور ایثار کی ایسی زنجیر بنائیں جو کشمیریوں کی غلامی کی زنجیر کو توڑ کر بکھیر کے رکھ دے۔ کشمیریوں نے ”بھارتیو کشمیر چھوڑ دو تحریک“ کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ پاکستانی حکومت اس کو حتمی انجام تک پہنچانے کے لئے ہنود، یہود و نصاریٰ کی طرف ملتجی نظروں سے نہ دیکھے۔ ان کے دامن سے چھٹکارا حاصل کرے۔ ان سے کنارہ کرے۔ اپنے آپ کو زندہ و جاوید ثابت کرتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا یارا کرے۔ پوری قوم اور خدا کی نصرت آپ کے ساتھ ہے۔ جب ایسا ہو تو ناکامیاں دھول بن کر اڑ جاتی ہیں۔ کامیابیاں اور کامرانیاں قدم چوم لیتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment