About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, February 23, 2011

مزید مہلت

 بدھ ، 23 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
25 مربعوں کے مالک چودھری کا بیٹا اوپر سے امریکہ میں نوکر، تین ساڑھے تین لاکھ تنخواہ۔ شادی شہر میں کی۔ اکثر باراتی کُلّے، لاچے، بوسکی کی قمیضیں اور کھسے پہنے ہوئے تھے۔ بارات فائیو سٹار ہوٹل میں بلائی اور ٹھہرائی گئی۔ وہاں بیرے باراتیوں سے بھی اونچے شملے نکالے ہوئے تھے۔ بہت سے باراتی ان کو اپنے سے بڑا چودھری سمجھ کر دونوں ہاتھ ملاتے رہے… صدر جنرل ضیاء الحق فرانس کے دورے پر گئے۔ قیام ہوٹل میں تھا۔ شام کو دروازے پر دستک ہوئی۔ صدر نے یس کہا، آنیوالے نے سفید یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ سینے اور کندھے پر بہت سے تمغے سجے تھے۔ صدر ضیاء الحق فوراً کھڑے ہو گئے۔ اسے گلے ملے اور گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ قریب بٹھا کر دفاعی اور قومی امور پر گفتگو شروع کر دی۔ جنرل فیض علی چشتی بھی وہاں موجود تھے۔ مہمان نے زیادہ وقت نہیں لیا اور گویا ہوا میں تو ہوٹل کا ویٹر ہوں‘ آپ سے پوچھنے آیا تھا کوئی خدمت ہو تو بتائیے۔ ضیاء الحق اسے فرانسیسی بحریہ کا ایڈمرل سمجھ بیٹھے تھے۔ 
پاکستان میں بھاری بھرکم کابینائوں کا رواج پرانا ہے۔ ایک وزیراعظم کو صدر نے کابینہ بنا کر دی۔ دوسرے تیسرے روز کابینہ کے اجلاس کی صدارت کیلئے آتے ہوئے وزیراعظم صاحب ایک ڈرائیور کو اپنا وزیر سمجھ کر اس سے بغلگیر ہو گئے… وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے نام 96 وزیروں کی کابینہ کی گئی تو نہ جانے کب تک ان کے نام یاد کرتے رہے۔ مشیر اس کے علاوہ تھے۔ سپریم کورٹ کے تمام ججوں، افواج کے سربراہوں اور کور کمانڈروں کے نام اور چہرے یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ پرانوں کے نام اور ان کے کام یاد نہیں رہتے نئے آنے والوں کو دل کے کس نہاں خانے میں بٹھائیں اور بسائیں؟ اس قباحت اور دماغ کھپانے سے بچنے کیلئے پرانوں کو اپنی آئینی مدت کے مطابق ایکسٹنشن دے دیتے ہیں۔ 
مسلم لیگ ن کہتی ہے کہ حکومت نے دس نکاتی ایجنڈے پر کوئی پیشرفت نہیں کی۔ گیلانی صاحب کا دعویٰ ہے کہ 6 پر عمل کر دیا 4 کیلئے مزید وقت چاہئے۔ جن نکات پر عمل ہوا اب ن لیگ انہیں ڈھونڈے رخِ زیبا لیکر۔ یہ بھی پوچھ لے کہ وزیراعظم نکات کس کو سمجھتے ہیں۔ کہیں نوکریوں پرمٹوں اور لائسنسوں کو تو نہیں سمجھتے۔ صدر وزیراعظم نے نوازشریف کے 10 نکاتی ایجنڈے کو کوئی اہمیت دی یا نہیں، ایک نکتے کو ضرور پذیرائی بخشی۔ کابینہ سے کرپٹ وزراء کو فارغ اور کابینہ کا سائز کم کرنے کا مطالبہ مان لیا۔ جن کو صدر اور وزیراعظم نے کرپٹ سمجھا ان کو کابینہ سے نکال دیا۔ جن کو ن لیگ یا کوئی اور کرپٹ سمجھتا تھا وہ صدر وزیراعظم کی نظر میں ایسے پارسا ٹھہرے گویا ع
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں 
اس کا شاید وزیراعظم کو افسوس بھی ہو کہ جب پوری کابینہ کے نام یاد ہوئے تو کابینہ سکیڑ دی گئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کابینہ کا سائز کم ہونے سے کچھ نہ کچھ بچت تو ضرور ہوئی ہے دیکھئے یہ بچت قومی خزانے میں جاتی ہے یا تقسیم پچیس وزیر۔ اب پھر کابینہ میں توسیع کی باتیں ہو رہی ہیں۔ صدر وزیراعظم اسی سائز کی کابینہ پر تکیہ کریں۔ وزیروں کی فوج ظفر موج کی ضرورت نہیں۔ موجودہ کابینہ میں بھی ضرورت سے دس بارہ زیادہ وزیر ہیں۔ ان میں سے ن لیگ جن کو کرپٹ سمجھتی ہے ان کو بھی پچھلوں کی طرح چلتا کریں تو شاید نوازشریف مزید مہلت دے دیں۔


No comments:

Post a Comment