منگل ، 08 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
یہ ممکن بھی ہے تاہم آپ فرض کیجئے اگر امریکہ، روس کی طرح ٹوٹ جائے، برطانیہ افغانستان کی طرح مقبوضہ ہو جائے تو کیا ان ممالک کے سفیروں کو پکڑ کر دریا میں دھکا دیدیا جائے، کسی دشت و ویرانے میں چھوڑ دیا جائے یا احمدی نژاد اور ہوگو شاویز کے حوالے کر دیا؟ آپ ان کو دریا بُرد کر سکتے ہیں۔ نہ خونخوار جانوروں کے سپرد اور نہ ہی کسی دشمن کے حوالے۔ وہ اس لئے کہ جنیوا کنونشن کے تحت ہر سفارتکار کا تحفظ آپ پر لازم ہے۔ اس کا احترام اور ادب آپ پر واجب اور اسے بحفاظت جہاں وہ چاہے پہنچانا آپ کا فرض ہے۔ عالمی قوانین کی نظر میں بلاامتیاز کسی ملک کے امیر غریب یا سپر پاور و بے پاور ہونے کے تمام سفارتکاروں کا سٹیٹس یکساں ہے۔ لیکن 2002 میں پاکستان میں جو کچھ ہوا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں عالمی قوانین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہماری اولیں و آخریں ترجیح امریکہ سرکار کی خوشنودی ہے امریکہ عالمی قوانین پر عمل کرائے تو بسم اللہ، عالمی قوانین کی دھول اڑائے، سبحان اللہ
یہ جنوری 2002ء کی داستانِ الم ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو پاکستان کی وزارت خارجہ کے حکام نے یقین دہانی کرائی کہ انہیں بدستور پاکستان میں رہنے کا حق حاصل ہے۔ ملا ضعیف کے مطابق ان کے پاسپورٹ پر ابھی 6 ماہ کا ویزہ موثر تھا۔ وہ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ ایف ٹین سیکٹر میں پاکستانی حکام کی زیر نگرانی تھے۔ پھر ایک دن کو گھر سے اٹھا کر پشاور میں ایک سیکورٹی ایجنسی کی قید میں دیدیا گیا۔ دو دن بعد پاکستان میں افغانستان کے سفیر، مہمان اور سب سے بڑھ کر ایک مسلمان جِسے جنیوا کنونشن اور عالمی قوانین کے تحت بطور سفیر ہر قسم کا تحفظ بھی حاصل تھا، انکی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھ باندھ کر امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس وقت کے بیورو کریٹس میں سے شاید کوئی مر گیا، کوئی کھپ گیا ہو تاہم ضمیر کی خلش اور غیرتِ ایمان کے باعث کوئی بھی نہیں مرا ہو گا۔ اکثر آج بھی انہی سیٹوں پر یا ترقی پا کر اگلے عہدوں پر براجمان ہونگے۔
امریکیوں کی تحویل میں آنے کی دیر تھی کہ سفارتی استثنٰی کی بھی پاکستانی حکمرانوں اور متعلقہ بیورو کریٹس کے مردہ ضمیروں کی طرح موت واقع ہو گئی۔ ملا عبدالسلام ضعیف پر تشدد کیا گیا۔ چھریوں سے بدن کے کپڑے تار تار کر کے برہنہ کر دیا گیا اور اس حالت میں جسے دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے ان کو ہیلی کاپٹر میں سوار کر کے یخ بستہ موسم میں افغانستان میں قائم امریکی عقوبت خانے میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ضعیف کئی سال گوانتاموبے میں عبرت کا نشان بنائے جاتے رہے۔ رہائی ملی تو 2008ء میں پاکستان میں انہوں نے کیس کیا ہے کہ انہیں حکومتِ پاکستان نے کس قانون کے تحت امریکی حکام کے حوالے کیا جبکہ انہیں سفارتی استثنٰی اور موثر ویزہ حاصل تھا۔ دوسرا نوٹس انہوں نے امریکی سفارتخانے کو دے رکھا ہے کہ کس بنیاد پر وہ ایک تسلیم شدہ سفیر کو دوسرے ملک سے گرفتار کر سکتے ہیں۔
آج امریکہ کا پورا زور تین پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر ہے۔ اسے سفارتی استثنٰی دلانے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ خود امریکیوں کی سفارتی استثنٰی کے حوالے سے عالمی قوانین کا احترام ملا ضعیف کے واقعہ سے واضح ہو جاتا ہے۔ امریکہ خود سفارت کاروں کو سفارتی استثنٰی کس طرح دیتا ہے اس کی مثال پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب منیر اکرم ہیں۔ 2002ء میں ان کی اپنی گرل فرینڈ مارجینا سے لڑائی ہو گئی۔ امریکی خاتون نے پولیس بلالی پاکستانی سفیر اندر ہو گئے۔ پاکستان نے سفارتی استثنٰی مانگا تو امریکہ نے پاکستان کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔ منیر اکرم کو سفارتی استثنٰی نہیں، خاتون سے صلح کے باعث رہائی ملی۔ (جاری ہے)
No comments:
Post a Comment