جمعۃالمبارک ، 18 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان
14 جنوری 2011 کو تیونس میں صدر زین العابدین کی 23 سالہ آمریت کا جنازہ اٹھا تو 11 فروری کو عوام نے مصری صدر حسنی مبارک کو بھی کنویں سے باہر نکال پھینکا، حسنی مبارک کے خلاف پہلا مظاہرہ 23 جنوری کو قاہرہ کے تحریر چوک میں ہوا۔ ساتھ ہی اردن، الجزائر اور یمن بھی مظاہرین اپنے اپنے حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین کے مسائل تقریباً ایک جیسے ہیں۔ کرپشن، مہنگائی، بیروزگاری، اقربا پروری اور لاقانونیت۔ عالمی دانشوروں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ عرب ممالک کے عوام اب جاگ گئے ہیں۔ تیونس کے بعد دیگر عرب ممالک بھی میں تبدیلیاں ہوں گی۔ انقلابات جنم لیں گے۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں بھی حالات اچھے نہیں۔ بہت سے ممالک میں تبدیلی آ سکتی ہے انقلاب بھی برپا ہو سکتا۔ پرامن بھی اور خونیں بھی۔ لیکن دانشوروں کو صرف عرب ممالک میں تبدیلی اور انقلاب کی ہوا چلتی کیوں نظر آ گئی؟ یہ یقیناً ان کا تجزیہ نہیں بلکہ خواہش ہے۔ جمہوریت آمریت اور ملوکیت میں سے اسی سسٹم کا سلسلہ جاری و ساری رہ سکتا ہے جس میں انسانی حقوق کا احترام ہو۔ عوام کے احساسات، جذبات، عزت نفس اور ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک کی تعداد 192 ہے ان میں 57 اسلامی ممالک ہیں چند ایک میں جمہوریت ہے اکثر میں بادشاہت آمریت و ملوکیت ہے کچھ میں جمہوریت و ملوکیت کا ملغوبہ۔ جو اسلامی ممالک جمہوریت کی علمبرداری کے دعویدار ہیں وہاں بھی اس کا ’’نیست اور نشٹ‘‘ مار کے رکھا ہوا ہے۔ پاکستان اس کی درخشاں مثال ہے۔ جمہوریت آمریت سے ملتی جلتی شکل میں رائج ہے۔ ممکن ہے کچھ دوست اس سے بھی اتفاق نہ کریں اور کہیں اللہ کا شکر ادا کرو جمہوریت ہے۔
سعودی عرب اور لیبا میں ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ حکمرانوں اور طرزِ حکمرانی سے مطمئن نہ ہوں لیکن وہاں وسیع پیمانے پر کوئی ایسی بے چینی نظر نہیں آتی جس سے کوئی تبدیلی کی آس لگا لے۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان اپنی رعایا کا خیال رکھتا ہے۔ قانون سب کے لئے برابر ہے۔ شاہ فیصل کو ان کے بھتیجے نے قتل کیا تو بدلے میں اس کی بھی گردن تن سے جُدا کر دی گئی۔ ہمارے ہاں قاتل کے خلاف جتنے بھی ثبوت ہوں مقدمے کی طوالت کے باعث وہ معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں اکثر اوقات ملزم بے گناہ قرار پاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ مدعی پارٹی اس سے انتقام لیتی ہے یا ملزم مزید لوگوں کو مار کر ایک بار پھر عدالت کو گمراہ کرنے کے لئے کٹہرے میں موجود ہوتا ہے۔ ریمنڈ 2 پاکستانیوں کا قاتل ہے، وہ اس کا اقرار بھی کرتا ہے۔ اس کے امریکی پشتیبان اور پاکستانی مہربان کہتے ہیں کہ اسے استثنٰی حاصل ہے۔ 1961ء کا ویانا کنونشن اگر یہ کہتا ہے کہ کسی سفارتکار کو اپنا نشانہ چیک کرنے کے لئے دو تین انسانوں کو مارنے کا حق حاصل ہے تو ایسے قانون اور قانون بنانے والوں پر لعنت ہے۔ خون کا بدلہ خون ہے۔ اب تو پولیس نے بھی قرار دیدیا کہ ریمنڈ نے مزاحمت پر قتل نہیں کئے۔ ریمنڈ کو چھوڑنا ہی ہے تو اللہ ہمت دے تو حسین حقانی بھی دو چار امریکیوں پر اپنا نشانہ آزما لیں۔ ان کا تو سفارتی استثنٰی بھی متنازعہ نہیں ہے۔
کرنل قذافی گذشتہ 42 سال سے لیبیا کی زمامِِ اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ کرنل قذافی نے خوابیدہ قوم کو بیدار کیا۔ لیبیا کا عالمی سطح پر وقار بلند کیا۔ لیبیا نے اٹلی سے آزادی حاصل کی۔ اطالوی فوج نے تحریک آزادی کے مجاہد 70 سالہ عمر مختار کو پھانسی لگا دی تھی۔ کرنل قذافی نے اس کی 10 ریال کے نوٹ پر تصویر چھپوائی۔ 2009ء میں اٹلی کے دورے پر گئے تو سینے پر عمر مختار کی تصویر چسپاں کی ہوئی تھی۔ ہم بھارتی حکمرانوں کی آمد پر دارالحکومت کی سڑکوں سے کشمیر کے بورڈ بھی اتار دیتے ہیں۔ قذافی، وزیراعظم برلسکونی سے بغلگیر ہوئے تو تصویر گلے میں بدستور موجود تھی۔ یہ قذافی ہی ہیں جنہوں نے مصر اور لیبیا کے ادغام کی تجویز پیش کی۔ بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے لئے بلینک چیک دیا۔ چودھری شجاعت لیبیا گئے تو قذافی نے کہا آپ لوگ کشمیر کی آزادی کی تحریک چلائیں خرچہ میں کروں گا۔ آج اس کے عوام اس سے مطمئن ہیں۔ اسلامی ممالک میں بغاوتوں کی صورت میں انقلاب کا خدشہ و امکان تو کسی بھی وقت موجود رہتا ہے تاہم سعودی اور لیبیائی حکمرانوں سے اب تک تو ان کے عوام مطمئن ہیں۔ وہاں تعلیم، صحت بجلی پانی گیس اور ٹیلی فون تک کی فری یا نہایت کم قیمت پر سہولتیں دستیاب ہیں۔ انصاف کا دور دورہ ہے۔ کسی کے ساتھ ظلم و ناانصافی نہیں ہوتی تو کیا عوام کا دماغ خراب ہے کہ سسٹم کے خلاف سڑکوں پر جان قربان کرنے چلے آئیں۔
No comments:
Post a Comment