About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, February 13, 2011

’’مچھیروں سے رہنمائی‘‘

اتوار ، 13 فروری ، 2011
فضل حسین اعوان ـ 6 گھنٹے 33 منٹ پہلے شائع کی گئی
بحث اس جوش و خروش سے ہورہی تھی، یوں جانئے زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ ایک سیانے نے روایتی بات دہرائی کہ ’’غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہورہا ہے۔ ایک طرف بلند و بالا محلات ایوان و شبستان ہیں تو دوسری طرف فاقہ مست انسان اور انکے ٹوٹے پھوٹے گھروندا نما مکان اور ایسے مکان بھی سب کی قسمت میں کہاں؟ دولت کا ارتکار چند ہاتھوں میں ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان مال و دولت کی وسیع خلیج ہے جو نفرت میں بدل رہی ہے۔ لوٹ مار کلچر کے باعث ایک طرف شاہانہ زندگی ہے تو دوسری طرف بھوک، ننگ اور افلاس کی گہماگہمی ہے‘‘… ان صاحب کی بات کاٹتے ہوئے دوسرے دانشور نے کہا حضور، بیماریوں کی نشاندہی ہوچکی…ع
علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
سیانے نے کہا ’’ہاں ہے بالکل ہے۔ سب سے بڑی بیماری لوٹ مار، کرپشن، بے ایمانی، رشوت ستانی، ہیرا پھیری‘ ذخیرہ اندوزی وغیرہ ہے۔ اسی کے سبب معاشرے میں بگاڑ ہے۔ اسکا خاتمہ صرف ایک اقدام سے کیا جاسکتا ہے، صرف ایک سے‘‘… جہاں پہنچ کر سیانے نے توقف کیا تو ہر گوش ہمہ تن اور ہر نظر اسکے چہرے پر گڑ گئی۔ تھوڑی دیر مزید خاموشی اختیار کی تو ایک بے چین آواز ابھری ’’وہ کیا؟‘‘ سیانے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’کرپشن ہونے دیں، لوٹ مار جاری رہے، جو بھی جو کچھ کر سکتا ہے، جائز ناجائز‘ اسے کرنے دیں، صرف معاشرے میں بے لاگ انصاف کی فراہمی یقینی بنا دیں تو ہر برائی کا خاتمہ ہوجائیگا۔ جس طرح ایک برگزیدہ شخص نے جھوٹ چھڑوا کر ایک گناہگار کو پارسا بنا دیا تھا‘‘۔
’’دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز، غربت میں اضافے اور آجر اور اجیر کے درمیان بلند اور مضبوط ہوتی نفرت کی دیوار کے ڈھا دئیے جانے کا بھی کوئی حل ہے…؟‘‘ محفل میں بیٹھے ایک اور زمانہ ساز نے پوچھا۔ اس پر سیانا خاموش رہا تو لباس اور وضع قطع سے جدت پسند نظر آنیوالے نوجوان خاموشی کو توڑنے ہوئے بولا ’’جی ہاں، اس حوالے سے ہمیں مچھیروں سے رہنمائی لینی چاہئے‘‘… ’’مچھیروں سے؟‘‘… نوجوان کی بات پر تین چار نے یک زبان ہو کر کہا، ’’ہاں مچھروں سے، میری اس حوالے سے کافی معلومات ہیں۔ کراچی کے ساحل سے ماہی گیر سمندر میں کشتی ڈالتے ہیں تو اس پر 40 سے 50 اور کبھی اس سے زائد افراد سوار ہوتے ہیں۔ ان کا مہینے بھر کا راشن بھی موجود ہوتا ہے۔ چھوٹی موٹی کشتی کی بات نہیں ہورہی، ٹرالر کی بات کررہا ہوں۔ ٹرالر میں مچھلی کی گنجائش بارہ تیرہ سو من ہوتی ہے۔ سڑکوں پر چلتے ٹرکوں میں اس سے زیادہ بوجھ لدا ہوتا ہے۔ اتنا ہی ٹرالی پر گنا بھی لاد دیا جاتا ہے۔ مچھیرے سمندر میں اپنی مرضی کی مچھلی کی تلاش میں رہتے ہیں اور اسی جستجو میں دوسرے ممالک کی حدود میں داخل ہونے پر پکڑے بھی جاتے ہیں۔ انکو مرضی کی مچھلی مل جائے تو اندازہ کیجئے وہ کتنے فائدہ میں رہیں گے؟‘‘ سب اپنے اپنے اندازے لگا رہے تھے کہ نوجوان نے بتایا ’’ہوسکتا ہے کہ مچھیروں کو پہلے دن ہی مچھلیوں کے غول مل جائیں اور وہ دوسرے دن ٹرالر بھر کر واپس چلے آئیں۔ دو، چار، دس دن اور مہینہ بھی لگ سکتا ہے۔ اگر مرضی کی مچھلی مل جائے تو اسکی قیمت ایک کروڑ اور اس سے زائد بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ اس پر محفل کے تمام شرکاء چونکے اور وضاحت طلب نظروں سے اپنی جگہ کسمساتے ہوئے نوجوان کی طرف دیکھا ’’ٹرالر میں پچاس ہزار کلو (1250 من) مچھلی آسانی سے سما سکتی ہے۔ آپ اپنے ہاں مچھلی کی قیمتوں کا اندازہ کیجئے۔ دو سو تین سو سے کم نہیں ملتی۔ بہترین مچھلی کی قیمت پانچ چھ سو روپے کلو ہے۔ ماہی گیر اگر دو سو روپے کلو بھی فروخت کریں تو رقم ایک کروڑ بنتی ہے۔ ہم بات مچھلی کے کاروبار کی نہیں، دولت کے ارتکاز اور نفرتوں کے خاتمے کی کررہے ہیں۔ اس ایک کروڑ کا کوئی ایک مالک نہیں ہوتا۔ کشتی پر سوار کشتی کا مالک بھی مزدور ہوتا ہے۔ 
ایک ضابطے کے مطابق حصے مقرر کئے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ کشتی کے حصے ہیں جس میں تیل، پانی اور خوراک کے اخراجات بھی آجاتے ہیں۔ ڈرائیور، مزدور، خانسامے اور بیرے ہر ایک کا حصہ مقرر ہے۔ جب غول نظر آئے تو ہر مزدور اس پر لپکتا اور جھپٹتا ہے۔ اپنی جان لڑا دیتا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ اسکی مزدوری طے نہیں، اسے حصہ ملے گا۔ جتنی زیادہ مچھلی جال میں آئیگی اتنی زیادہ اسکی زندگی میں خوشحالی آئیگی۔ آپ یہ سسٹم روزمرہ زندگی میں سمندر کے باہر بھی آزما کر دیکھ لیں۔ جہاں ممکن ہے وہاں تنخواہوں کے بجائے آمدن میں سے حصہ مقرر کردیں تو مزدور، چپڑاسی سے منیجر تک اپنے خون پسینے کا ایک ایک قطرہ کاروبار کو انتہا تک پہنچانے کی خاطر بہانے پر جوش و جذبے کے ساتھ آمادہ و مائل ہوگا‘‘۔ سیانے اور نوجوان نے شاید ٹھیک ہی کہا ہے۔


No comments:

Post a Comment