پیر ، 31 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
پاکستان کی سیاست دھوپ اور چھاؤں کی مانند ہے۔ یہ بن بادل برسات کی طرح کسی کو بیٹھے بٹھائے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے اور کسی کا کروفر تفاخر اور کبرپل بھر میں خاک میں ملا دیتی ہے۔ پاکستان میں مستقل محبت پیار احترام نام اور پرنام اگر کسی کو ملا تو وہ حضرت قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح ہیں۔ ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے کبھی مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا اور کبھی عدم مقبولیت کی پستیوں میں گرے۔ پیپلز پارٹی بھٹو کے نام پر آج تیسری بار اقتدار میں ہے تو مسلم لیگ ن نے محض میاں نواز شریف کی شخصیت کے باعث 1997ء کے انتخابات میں کلین سویپ کیا۔ مسلم لیگ ن نے 207 میں 137 نشستیں حاصل کرکے گذشتہ انتخابات میں بھاری مینڈیٹ کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا 1970ء کے الیکشن میں مغربی پاکستان میں مقبولیت کا ستارہ عروج پر تھا۔ وہ 138 میں سے 81 نشستیں حاصل کرکے مغربی پاکستان میں مرد میدان قرار پائے تھے لیکن جیت کا یہ تناسب میاں نواز شریف کے 1997ء کے مارجن سے بہت کم ہے۔ یقیناً دونوں لیڈروں کی ذہانت‘ فطانت‘ دور اندیشی‘ معاملہ فہمی‘ قوت ارادی اور قوت فیصلہ کی صلاحیت کو اہلیت کا کوئی مقابلہ اور موازنہ نہیں۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ دونوں لیڈروں کی مقبولیت میں کمی بیشی ضرور ہوتی رہی ہے لیکن دونوں پاکستان کے بڑے حلقے کے دلوں میں بستے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو آنجہانی ہو گئے نواز شریف آج بھی تاریخ ساز لیڈر ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک یکساں ہر دلعزیز کچھ کمزوریوں کے باوجود بھی ملک میں کسی بھی لیڈر سے زیادہ چاہے جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور سیاست میں بلند مقام کے باعث لوگ ان سے بڑی امیدیں رکھتے ہیں۔ میاں صاحب 60 سال کی عمر کراس کر چکے اس عمر میں ان کو پختہ ذہن کا سیاستدان ہونا چاہئے مگر افسوس کہ ان کی طبعیت میں ٹھہراؤ کے بجائے تلاطم اور خلفشار موجود ہے۔ لمبی چوڑی بحث میں نہیں پڑتے 26 جنوری 2011ء کو ایک معاصر کو انٹرویو کے دوران فرمایا ’’موجودہ حالات میں انتخابات یا ان ہاؤس تبدیلی خطرناک کام ہے‘اگلے روز پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس کے بالکل برعکس گویا ہوئے۔ ’’10 نکاتی ایجنڈے پر عمل نہ کیا تو حکومت کو گھر جانا پڑے گا۔ مڈٹرم الیکشن کرانا پڑیں گے یا اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت بنائیں گی‘‘ اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ آج کچھ کیا کل اسی معاملے پر نیا کچھ ان کے ترجمان اور پھر ترجمانوں کے ترجمان اور میڈیا میں میاں صاحب کی زبان‘ میاں صاحب کو حقائق کا ادراک کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے جو کچھ میاں صاحب نے کہہ دیا اس پر بلا سوچے سمجھے اور غور و خوض کئے پورے زور سے ڈھول پیٹتے ہیں دوسرے دن اس کے برعکس کہے گئے تو سچ ثابت کرنے کیلئے ایڑھیاں اٹھا اٹھا کر زور لگا کے بولتے ہیں۔ اس سے جہاں میاں صاحب کے ہرکاروں کا اعتبار جاتا رہتا ہے وہیں میاں صاحب کی سیاسی پختگی بھی زیر بحث آتی ہے۔ میاں صاحب کوئی معمولی لیڈر نہیں ہیں۔ بڑے لیڈر ہیں۔ خود کو اپنے کردار‘ اعمال‘ افکار اقوال اور افعال سے بھی بڑا ثابت کریں۔ بھولپن اور سادگی میں بھی ایسی بات نہ کریں جس سے دوسرے روز رجوع کرنا پڑے۔ قائداعظم کا ثانی تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔
فضل حسین اعوان
پاکستان کی سیاست دھوپ اور چھاؤں کی مانند ہے۔ یہ بن بادل برسات کی طرح کسی کو بیٹھے بٹھائے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے اور کسی کا کروفر تفاخر اور کبرپل بھر میں خاک میں ملا دیتی ہے۔ پاکستان میں مستقل محبت پیار احترام نام اور پرنام اگر کسی کو ملا تو وہ حضرت قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح ہیں۔ ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے کبھی مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا اور کبھی عدم مقبولیت کی پستیوں میں گرے۔ پیپلز پارٹی بھٹو کے نام پر آج تیسری بار اقتدار میں ہے تو مسلم لیگ ن نے محض میاں نواز شریف کی شخصیت کے باعث 1997ء کے انتخابات میں کلین سویپ کیا۔ مسلم لیگ ن نے 207 میں 137 نشستیں حاصل کرکے گذشتہ انتخابات میں بھاری مینڈیٹ کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا 1970ء کے الیکشن میں مغربی پاکستان میں مقبولیت کا ستارہ عروج پر تھا۔ وہ 138 میں سے 81 نشستیں حاصل کرکے مغربی پاکستان میں مرد میدان قرار پائے تھے لیکن جیت کا یہ تناسب میاں نواز شریف کے 1997ء کے مارجن سے بہت کم ہے۔ یقیناً دونوں لیڈروں کی ذہانت‘ فطانت‘ دور اندیشی‘ معاملہ فہمی‘ قوت ارادی اور قوت فیصلہ کی صلاحیت کو اہلیت کا کوئی مقابلہ اور موازنہ نہیں۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ دونوں لیڈروں کی مقبولیت میں کمی بیشی ضرور ہوتی رہی ہے لیکن دونوں پاکستان کے بڑے حلقے کے دلوں میں بستے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو آنجہانی ہو گئے نواز شریف آج بھی تاریخ ساز لیڈر ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک یکساں ہر دلعزیز کچھ کمزوریوں کے باوجود بھی ملک میں کسی بھی لیڈر سے زیادہ چاہے جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور سیاست میں بلند مقام کے باعث لوگ ان سے بڑی امیدیں رکھتے ہیں۔ میاں صاحب 60 سال کی عمر کراس کر چکے اس عمر میں ان کو پختہ ذہن کا سیاستدان ہونا چاہئے مگر افسوس کہ ان کی طبعیت میں ٹھہراؤ کے بجائے تلاطم اور خلفشار موجود ہے۔ لمبی چوڑی بحث میں نہیں پڑتے 26 جنوری 2011ء کو ایک معاصر کو انٹرویو کے دوران فرمایا ’’موجودہ حالات میں انتخابات یا ان ہاؤس تبدیلی خطرناک کام ہے‘اگلے روز پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس کے بالکل برعکس گویا ہوئے۔ ’’10 نکاتی ایجنڈے پر عمل نہ کیا تو حکومت کو گھر جانا پڑے گا۔ مڈٹرم الیکشن کرانا پڑیں گے یا اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت بنائیں گی‘‘ اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ آج کچھ کیا کل اسی معاملے پر نیا کچھ ان کے ترجمان اور پھر ترجمانوں کے ترجمان اور میڈیا میں میاں صاحب کی زبان‘ میاں صاحب کو حقائق کا ادراک کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے جو کچھ میاں صاحب نے کہہ دیا اس پر بلا سوچے سمجھے اور غور و خوض کئے پورے زور سے ڈھول پیٹتے ہیں دوسرے دن اس کے برعکس کہے گئے تو سچ ثابت کرنے کیلئے ایڑھیاں اٹھا اٹھا کر زور لگا کے بولتے ہیں۔ اس سے جہاں میاں صاحب کے ہرکاروں کا اعتبار جاتا رہتا ہے وہیں میاں صاحب کی سیاسی پختگی بھی زیر بحث آتی ہے۔ میاں صاحب کوئی معمولی لیڈر نہیں ہیں۔ بڑے لیڈر ہیں۔ خود کو اپنے کردار‘ اعمال‘ افکار اقوال اور افعال سے بھی بڑا ثابت کریں۔ بھولپن اور سادگی میں بھی ایسی بات نہ کریں جس سے دوسرے روز رجوع کرنا پڑے۔ قائداعظم کا ثانی تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment