یکم جنوری 2011
فضل حسین اعوان
مولانا فضل الرحمن کچھ لوگوں کیلئے دل بہار اور کچھ کیلئے دل فگار ہیں۔ کسی کے آنگن میں خزاں اترے یا زوال، یہ اپنے دامن میں کہکشائیں سمیٹنے اور گلشن و گلستان لپیٹنے کا فن جانتے ہیں۔ ایک حلقہ انکو سیاست میں جہاندیدہ اور دوسرا خزاں دیدہ گردانتا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے مولانا اس کی کم ہی پرواہ کرتے ہیں۔ وہ عبادت کو عبادت اور سیاست کو سیاست سمجھتے ہیں۔ دونوں کو آپس میں گڈمڈ نہیں کرتے۔ حضرت مولانا بے ریا، عبادت گزار اور اقتدار کی غلام گردشوں کی رگ رگ سے واقف کار ہیں۔ وہ سیاسی میدان میں ہتھیلی پر سرسوں جما سکتے اور سمندر کی تہہ میں پوشیدہ و پنہاں لعل و جواہر غوطہ لگا کر مٹھی میں بند کرکے لاسکتے ہیں۔ سیاست کی معراج اقتدار ہے۔ وہ اقتدار کی منزل کے راستے کی دیوار پھلانگ یا ڈھا دینے سے گریز نہیں کرتے۔ مولانا سمیع الحق اور مجلس عمل ایسی ہی دیواریں اور رکاوٹیں تھیں۔ اب نہ جانے کس نے تھپکی دیکر مولانا کو وزارت عظمیٰ کی بتی کے پیچھے دوڑا دیا۔ سواتی کی برطرفی پر حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کیا، وزرائ سے استعفے دلوائے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن نشستوں پر بھی چلے گئے۔ ایم کیو ایم اور چوہدری شجاعت کی پارٹی سے رابطے کئے۔ رابطوں میں گرمجوشی تک حکومت سے علیحدگی کے فیصلے کو حتمی قرار دیتے رہے۔ ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدگی میں جلد بازی نہ کی تو مولانا کی حکومت میں واپسی کی بے قراری برق رفتاری بن گئی۔ ایم کیو ایم دھیرے دھیرے حکومت سے دامن چھڑانے کی طرف گامزن ہوئی تو مولانا نے الٹے پا?ں گھومے اور حکومت میں اپنی واپسی کو وزیراعظم گیلانی کو نکالے جانے سے مشروط کردیا۔ جے یو آئی کی قومی اسمبلی میں 7 سیٹیں ہیں اسکے باوجود وہ اے این پی کی 13 اور ایم کیو ایم کی 25 نشستوں کے مقابلے میں خود کو بھاری بھرکم ثابت کرچکی ہے۔ اے این پی اور ایم کیو ایم نے دو، دو وزارتوں پر اکتفا کیا ہے۔ جے یو آئی کو تین بھی کم پڑ گئیں۔ دو چھوڑ کر اب چار کے طلبگار ہیں۔ گیلانی ہٹا? مہم اپنے نائب عبدالغفور حیدری کے سپرد کرکے مولانا سعودیہ تشریف لے گئے۔ وہ سعودی عرب بھی نہیں پہنچ پائے تھے کہ انکی پارٹی میں کھڑاک وہ بھی خطرناک ہوگیا۔ رحمت اللہ کاکڑ نے نعرہ ¿ مستانہ بلند کردیا کہ وہ استعفے کی قبولیت تک بدستور وزیر ہیں، گاڑی واپس کرینگے نہ سرکاری گھر۔کاکڑ صاحب بھی مولانا کے چنڈے ہوئے ہیں، اپنے عزم باالجزم پر زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے۔ تاہم گاڑی اور گھر پر بدستور قابض ہیں۔
کچھ دانشور اور ماہرین سیاست کے گھوڑے پر اپنی خواہش کی زین کس کے باگ پر ہاتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ دور کی کوڑی لاتے اور مفت مشورے دیتے ہیں کہ جے یو آئی یوں کرے، ایم کیو ایم اور (ق) لیگ ووں کردے اور (ن) لیگ ہاں ہوں کردے تو نیا سیٹ اپ آسکتا ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی سیاست کرے، کسی کی یوں اوروں پر نظر کیوں؟ نوازشریف نے کہا کہ اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو آئیں ہمارے ساتھ بیٹھیں، دو سال کا ایجنڈا طے کریں۔ نوازشریف صاحب کس کو دو سال کا ایجنڈا طے کرنے کی دعوت دے رہے ہیں، ان کو جن کی د ±م اقتدار سے باہر باقی جسم اقتدار کے اندر ہے؟ جن کا زرداری صاحب پیٹ نہ بھر سکے انکا نوازشریف بھر دیں گے؟ ویسے بھی خفیہ ہاتھ کے بغیر اِن ہا?س تبدیلی ہوسکتی ہے نہ مڈٹرم انتخابات۔ دونوں صورتوں میں ملک سے شرافت کی سیاست کا جنازہ اٹھ جائیگا۔ اسکی جھلک مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم مجادلہ کی صورت میں دنیا نے دیکھ لی۔ ہم ایک بار پھر 80ئ اور 90ئ کی دہائی والی شر، شرارت، انتقام اور فساد کی سیاست میں گِھر جائیں گے۔ نواز شریف امکانات، مکافات، مفاجات اور مفادات کی سیاست کرنے والوں کا مہرہ بنیں، نہ حکومت کا سہارا، صحیح اپوزیشن کا کردار اپنائیں۔ حکومت اپنے اعمال اور افعال کے وزن سے گرتی ہے تو گرنے دیں۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment