اتوار ، 23 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
ہمارے ہاں مروجہ سیاست ایڈونچر اور عجب کھیل ہے یہ کسی کیلئے قارون کا خزانہ اور اکثر کیلئے کنگلے اور کنگال ہونے کا بہانہ وشاخسانہ ہے۔قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی الیکشن میں ایک ایک سیٹ پر کئی کئی بعض پر درجنوں امیدوار بھی کیل کانٹے سے لیس ہوکر میدان میں اترتے ہیں۔ مہم کے دوران دن دیکھتے ہیں نہ رات،صبح و نہ شام، ان تھک محنت، بھرپور کوشش اور بے جا اخراجات کرکے بھی نگاہ ووٹر کی نظرالتفات کی منتظر ہوتی ہے۔جیتتا صرف ایک امیدوار ہے۔باقی کی انتخابی مہم میں چٹخی اور کڑکی ہڈیوں اور بے بہاو بے جاسرمایہ کاری کاکوئی مول نہیں پڑتا۔گھر پھونک کر ہارنے والے امیدوار اگلے الیکشن میں کامیابی کی امید کے چراغ جلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جیتنے والا امیدوار سرکاری فنڈ حلقے میں لگا کر اپنی سیٹ پکی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسے ووٹر کو قابو میں رکھنے کیلئے کئی جتن کرنا اور پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ پورے حلقے میں خوشی غمی میں شرکت، تھانے کچہریوں میں ووٹر کی مدد بھی اس کے فرائض منصبی میں شامل ہوتی ہے۔ جو صرف اپنی کامیابی و کامرانی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔فنڈ لے کر ٹھنڈ رکھ لیتا ہے حلقے میں اپنی شکل نہیں دکھاتا ہے ۔اگلے الیکشن میں لوگ ووٹ کی پرچی سے اس کے منہ پر کالک مل دیتے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ کہ مروجہ سیاست یعنی انتخابی سیاست جان جوکھوں کا کام ہے۔یہ الگ موضوع ہے کہ جیتنے والوں کی اکثریت اگلی پچھلی تمام کسریں نکال لیتی ہے لاکھوں لگانے والا کروڑوں اور کروڑوں کھپانے والا اربوں روپے کی کمائی کرتا ہے۔
ہماری اسی سیاست میں ایسے دروازے بھی ہیں جو سیدھے جنت کی ہوائوں اور فضائوں کے نظارے کرادیتے ہیں۔بغیر کسی محنت کوشش،خجل خواری دوڑ دھوپ اور تگ ودو کے گنگا جل،دودھ اور شہد کی نہروں تک دسترس ہوجاتی ہے۔ یہ قسمت کے دھنی سینٹر اور خصوصی نشستوں کی حامل خواتین ہیں۔ ہمارے ہاں جماندرو یعنی پیدائشی سینٹر بھی پائے جاتے ہیں۔جن کو ان کی پارٹی متواتر جتائے چلی جاتی ہے اسی راستے سے کئی صدارتی منصب تک بھی جاپہنچے ،اہم وزارتیں ہر دور میں ان کی راہ میں کہکشائیں بنی رہتی ہیں۔ سینٹر بننے کیلئے پارٹی سربراہ کا معتمد ہونا ہی کافی ہے۔ البتہ اپنی مدد آپ کے تحت سینٹر بننے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ فاٹا سے رکن قومی اسمبلی کامران خان نے اعتراف سے زیادہ انکشاف کیا ہے کہ سینٹ کے انتخاب میں ووٹ دینے کیلئے ان کو اڑھائی کروڑ روپے ملے تھے۔ ایم این اے صاحب نے اتنی بڑی شرم کی بات کتنی بے شرمی سے کہہ دی۔ایک شخص جب پندرہ کروڑ لگا کے سینٹ میں آئیگا تو کیا خیال ہے،رقم پوری بلکہ دگنا تگنا یا اس سے بھی زیادہ کرنے کیلئے اودھم نہیں مچائے گا پھر اس سے قومی خزانے کو کون بچائے گا ۔حکومت کو بکائو مال درکار۔ ان کو خریدار کا انتظار۔فاٹا کے ایم این ایز اڑھائی تین کروڑ روپیہ سینٹر سے بٹورتے اور اس سے کہیں بڑھ کر حکومت سے ماٹھتے ہیں۔وزیراعظم نے نہ جانے کس بحران سے نبردآزما ہونے کیلئے ترقیاتی فنڈز کے نام پر فاٹا کے ارکان کو تین تین کروڑ روپے دینے کی منظوری دی ہے۔
پنجاب میں خصوصی نشستوں والی خواتین نے بھی ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ اپنا حلقہ دکھائیں اور فنڈز پائیں۔خصوصی نشستوں پر آنیوالی خواتین کو خود ان کے ساتھی ہی مکمل رکن نہیں سمجھتے عموماً ان کونفرت اور حقارت سے دیکھتے ہیں اور اظہار بھی کرتے ہیں ان کا کرائی ٹیریا کیا ہے۔ پارٹی کی لیڈر شپ سے رشتہ داری ،سفارش یا پارٹی سے وفاداری اور خدمت۔ کیا پارٹی سے وفاداری خدمت کرنے اور مار کھانے والی تمام خواتین کو خصوصی نشستوں پر اکاموڈیٹ کیاجاتا ہے؟ اہلیت نظر انداز، ڈگری بھی نہیں دیکھی گئی ۔یہ قانون سازی سے زیادہ گالم گلوچ اور جوتا بازی کرتی ہیں، بعض جعلی ڈگری والی گھس گئیں۔ بہر حال خوش قسمت ہیںجن کے سرپر جیسے بھی ہے ہما بیٹھ گیا۔کوئی ان کو اپنے برابر سمجھے یا نہ سمجھے یہ ممبران اسمبلی تو ہیں۔ اگر ہیں تو ان کو مراعات بھی دوسروں کے برابر دیں۔البتہ گرم و سرد کا اندازہ کرنے کیلئے کسی بھی پارٹی رکن کیلئے خصوصی نشست مراعات اور انعامات نہیں ہوناچاہئے۔ فردوس عاشق اعوان نے خصوصی نشستوں پر آنیوالی خواتین کے بارے میں جو کہا وہ ان خواتین اور ان کے والدین کیلئے لمحہ فکریہ ہوناچاہئے۔ایسے کام، کاروبار، جعلی قدرو منزلت اور عہدے پر لعنت بھیجنی چاہئے جو آپ کیلئے بندگی کے بجائے شرمندگی کا باعث بن جائے۔جمہوریت پر یقین رکھنے والی خواتین خیرات اور بخشیش کی نشستیں حاصل کرنے کے بجائے اسمبلیوں میں بل پیش کریں کہ خواتین کا انتخاب بھی براہِ راست ووٹ کے ذریعے ہو جس کیلئے الگ سے حلقہ بندی کی جائے پھر ان خواتین کوترقیاتی فنڈز بڑے وقار کے ساتھ مل جایا کریں گے۔ سینٹ کی نشست کو بھی انعام نہیں بناناچاہئے ان کے بھی براہِ راست انتخاب کا کوئی طریقہ نکالاجائے تاکہ جماندرو سینٹروں کو بھی سیاست میں اونچ نیچ کا پتہ چل سکے۔
فضل حسین اعوان
ہمارے ہاں مروجہ سیاست ایڈونچر اور عجب کھیل ہے یہ کسی کیلئے قارون کا خزانہ اور اکثر کیلئے کنگلے اور کنگال ہونے کا بہانہ وشاخسانہ ہے۔قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی الیکشن میں ایک ایک سیٹ پر کئی کئی بعض پر درجنوں امیدوار بھی کیل کانٹے سے لیس ہوکر میدان میں اترتے ہیں۔ مہم کے دوران دن دیکھتے ہیں نہ رات،صبح و نہ شام، ان تھک محنت، بھرپور کوشش اور بے جا اخراجات کرکے بھی نگاہ ووٹر کی نظرالتفات کی منتظر ہوتی ہے۔جیتتا صرف ایک امیدوار ہے۔باقی کی انتخابی مہم میں چٹخی اور کڑکی ہڈیوں اور بے بہاو بے جاسرمایہ کاری کاکوئی مول نہیں پڑتا۔گھر پھونک کر ہارنے والے امیدوار اگلے الیکشن میں کامیابی کی امید کے چراغ جلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جیتنے والا امیدوار سرکاری فنڈ حلقے میں لگا کر اپنی سیٹ پکی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسے ووٹر کو قابو میں رکھنے کیلئے کئی جتن کرنا اور پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ پورے حلقے میں خوشی غمی میں شرکت، تھانے کچہریوں میں ووٹر کی مدد بھی اس کے فرائض منصبی میں شامل ہوتی ہے۔ جو صرف اپنی کامیابی و کامرانی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔فنڈ لے کر ٹھنڈ رکھ لیتا ہے حلقے میں اپنی شکل نہیں دکھاتا ہے ۔اگلے الیکشن میں لوگ ووٹ کی پرچی سے اس کے منہ پر کالک مل دیتے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ کہ مروجہ سیاست یعنی انتخابی سیاست جان جوکھوں کا کام ہے۔یہ الگ موضوع ہے کہ جیتنے والوں کی اکثریت اگلی پچھلی تمام کسریں نکال لیتی ہے لاکھوں لگانے والا کروڑوں اور کروڑوں کھپانے والا اربوں روپے کی کمائی کرتا ہے۔
ہماری اسی سیاست میں ایسے دروازے بھی ہیں جو سیدھے جنت کی ہوائوں اور فضائوں کے نظارے کرادیتے ہیں۔بغیر کسی محنت کوشش،خجل خواری دوڑ دھوپ اور تگ ودو کے گنگا جل،دودھ اور شہد کی نہروں تک دسترس ہوجاتی ہے۔ یہ قسمت کے دھنی سینٹر اور خصوصی نشستوں کی حامل خواتین ہیں۔ ہمارے ہاں جماندرو یعنی پیدائشی سینٹر بھی پائے جاتے ہیں۔جن کو ان کی پارٹی متواتر جتائے چلی جاتی ہے اسی راستے سے کئی صدارتی منصب تک بھی جاپہنچے ،اہم وزارتیں ہر دور میں ان کی راہ میں کہکشائیں بنی رہتی ہیں۔ سینٹر بننے کیلئے پارٹی سربراہ کا معتمد ہونا ہی کافی ہے۔ البتہ اپنی مدد آپ کے تحت سینٹر بننے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ فاٹا سے رکن قومی اسمبلی کامران خان نے اعتراف سے زیادہ انکشاف کیا ہے کہ سینٹ کے انتخاب میں ووٹ دینے کیلئے ان کو اڑھائی کروڑ روپے ملے تھے۔ ایم این اے صاحب نے اتنی بڑی شرم کی بات کتنی بے شرمی سے کہہ دی۔ایک شخص جب پندرہ کروڑ لگا کے سینٹ میں آئیگا تو کیا خیال ہے،رقم پوری بلکہ دگنا تگنا یا اس سے بھی زیادہ کرنے کیلئے اودھم نہیں مچائے گا پھر اس سے قومی خزانے کو کون بچائے گا ۔حکومت کو بکائو مال درکار۔ ان کو خریدار کا انتظار۔فاٹا کے ایم این ایز اڑھائی تین کروڑ روپیہ سینٹر سے بٹورتے اور اس سے کہیں بڑھ کر حکومت سے ماٹھتے ہیں۔وزیراعظم نے نہ جانے کس بحران سے نبردآزما ہونے کیلئے ترقیاتی فنڈز کے نام پر فاٹا کے ارکان کو تین تین کروڑ روپے دینے کی منظوری دی ہے۔
پنجاب میں خصوصی نشستوں والی خواتین نے بھی ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ اپنا حلقہ دکھائیں اور فنڈز پائیں۔خصوصی نشستوں پر آنیوالی خواتین کو خود ان کے ساتھی ہی مکمل رکن نہیں سمجھتے عموماً ان کونفرت اور حقارت سے دیکھتے ہیں اور اظہار بھی کرتے ہیں ان کا کرائی ٹیریا کیا ہے۔ پارٹی کی لیڈر شپ سے رشتہ داری ،سفارش یا پارٹی سے وفاداری اور خدمت۔ کیا پارٹی سے وفاداری خدمت کرنے اور مار کھانے والی تمام خواتین کو خصوصی نشستوں پر اکاموڈیٹ کیاجاتا ہے؟ اہلیت نظر انداز، ڈگری بھی نہیں دیکھی گئی ۔یہ قانون سازی سے زیادہ گالم گلوچ اور جوتا بازی کرتی ہیں، بعض جعلی ڈگری والی گھس گئیں۔ بہر حال خوش قسمت ہیںجن کے سرپر جیسے بھی ہے ہما بیٹھ گیا۔کوئی ان کو اپنے برابر سمجھے یا نہ سمجھے یہ ممبران اسمبلی تو ہیں۔ اگر ہیں تو ان کو مراعات بھی دوسروں کے برابر دیں۔البتہ گرم و سرد کا اندازہ کرنے کیلئے کسی بھی پارٹی رکن کیلئے خصوصی نشست مراعات اور انعامات نہیں ہوناچاہئے۔ فردوس عاشق اعوان نے خصوصی نشستوں پر آنیوالی خواتین کے بارے میں جو کہا وہ ان خواتین اور ان کے والدین کیلئے لمحہ فکریہ ہوناچاہئے۔ایسے کام، کاروبار، جعلی قدرو منزلت اور عہدے پر لعنت بھیجنی چاہئے جو آپ کیلئے بندگی کے بجائے شرمندگی کا باعث بن جائے۔جمہوریت پر یقین رکھنے والی خواتین خیرات اور بخشیش کی نشستیں حاصل کرنے کے بجائے اسمبلیوں میں بل پیش کریں کہ خواتین کا انتخاب بھی براہِ راست ووٹ کے ذریعے ہو جس کیلئے الگ سے حلقہ بندی کی جائے پھر ان خواتین کوترقیاتی فنڈز بڑے وقار کے ساتھ مل جایا کریں گے۔ سینٹ کی نشست کو بھی انعام نہیں بناناچاہئے ان کے بھی براہِ راست انتخاب کا کوئی طریقہ نکالاجائے تاکہ جماندرو سینٹروں کو بھی سیاست میں اونچ نیچ کا پتہ چل سکے۔
No comments:
Post a Comment