فضل حسین اعوان
8-1-11
ہمارے ہاں کُتے کی توقیر اور بے توقیری کے معاملے میں دو انتہائیں ہیں۔ ایک طرف اسے نجس اور نفرین سمجھا جاتا ہے تو دوسری طرف کئی لوگ اسے بڑے شوق سے پالتے اور بڑے اہتمام سے اس کی ”ٹہل سیوا“ کرتے ہیں۔ ایسے ناز و نعمت کم کم کتوں کے حصے میں آتے ہیں۔ زیادہ تر کے ساتھ کتوں جیسی ہی ہوتی ہے، کسی نے پتھر مار دیا کسی نے دھتکار دیا۔ کتوں کی بہتات ہو گئی، ان کی آوارگی اور کاٹنے کی شکایتیں عام ہوئیں تو کارپوریشن نے جہاں اور جیسی حالت میں پایا پھڑکا دیا۔ وہ کتا آج بھی نہیں بھولتا جس نے مجھے سکول سے آتے ہوئے پنڈلی سے بڑی خاموشی سے آ کر پکڑ لیا۔ پنڈلی پر دانت چُبھے اور ”فانٹانوالہ“ پاجامہ بھی پھٹ گیا۔ یہ کوئی اجنبی نہیں جانا پہچانا کتا تھا۔ درجن بھر آوارہ کتوں میں سے ایک۔ کبھی اِس دَر اور کبھی اُس گھر۔ اس سے قبل اس نے کسی کے ساتھ بدمعاشی نہیں کی تھی۔ ٹانگ چھڑانے کے لئے بستے سے تختی نکالی گویا میان سے تلوار نکلتے دیکھ کر کتے نے ٹانگ چھوڑی اور بڑی شانِ بے نیازی سے ایک طرف چل دیا تاہم وقفے وقفے سے پیچھے مڑ کر ضرور دیکھتا جاتا تھا۔ میں گھر گیا غصے سے دماغ چکرا رہا تھا انتقام کا جذبہ دماغ میں پٹاخے چلا رہا تھا۔ اپنے حصے کی روٹی اٹھائی اور کتے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اس نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا تھا کہ گاﺅں چھوڑ جاتا۔ گاﺅں کی ایک نکر پر کوڑے کے ڈھیر پر محوِ استراحت مل گیا۔ مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر بھاگنے کے لئے پر تول رہا تھا کہ میں نے روٹی کا ٹکڑا اس کی طرف اچھال دیا۔ وہ اس پر لپکا جھپٹا اور پل بھر میں اچک کر نگل گیا۔ابھی آدھی سے زیادہ روٹی میرے ہاتھوں میں تھی۔ میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پھینکتا گھر کی طرف چل دیا۔ کتا پیچھے پیچھے ٹکڑے کھاتا آ رہا تھا اسے گھر لا کر مزید ایک پوری روٹی بھی کھلا دی۔ ان دنوں گاﺅں میں بجلی نہیں تھی روشنی کے لئے لالٹین یا دیا استعمال کیا جاتا تھا۔ میں نے دیا اٹھایا اس کا ڈھکن اتارا اور اس میں سارا تیل کتے کی دم پر انڈیل دیا۔ وہ شاید تیسری روٹی کی آمد کا منتظر تھا۔ تیل کی ٹھنڈک سے چھلانگیں لگاتا ہوا بھاگ گیا تاہم چند منٹ بعد دوبارہ نہ جانے کس لالچ میں چلا آیا۔ اب میں نے چھابے میں پڑی تیسری اور آخری روٹی بھی اس کے سامنے پھینک دی۔ ساتھ ہی جیب سے ماچس نکالی، تیلی اس کی آنکھوں کے سامنے جلائی اور پھلجھڑی کی طرح اس کی دم پر پھینک دی، جس سے دم یکدم مکمل طور پر آگ کی لپیٹ میں آ گئی کتا ”چانگریں “مارتا، شعلہ فشاں و شعلہ زن دم کے ساتھ گلیوں سے ہوتا ہوا کھیتوں کے بیچوں بیچ جِدھر منہ ہوا بھاگتا چلا گیا۔ شاید غیرت کی کوئی رمق اس کے اندر موجود تھی یا ضمیر زندہ تھا وہ اس کے بعد گاﺅں نہیں آیا۔
کہتے ہیں جس گھر میں کتا ہو، اس میں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا تاہم کچھ کنڈیشنز کے ساتھ کتا رکھنے کی اجازت بھی ہے۔ اصحابِ کہف کے ساتھ موجود کتے کی فضیلت مسلمہ ہے۔ آج اس کتے کا کمال ملاحظہ جس کا ذکر الدر رالکامن حصہ تین صفحہ 202 پر ہے، کسی مہربان نے عربی سے ترجمہ کر کے بھجوایا ہے۔
”منگولوں کو عیسائی بنانے کے لئے مشنریز انکے قبیلوں میں بڑے جوش و خروش سے پرچار کیا کرتے تھے، اپنی عیسائی بیوی ظفر خاتون کی خوشی اور خواہش کے سامنے مجبور ہلاکو ان کی ہر قسم کی معاونت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی منگول سردار کی تاج پوشی کی ایک بہت بڑی تقریب میں سرکردہ عیسائی مبلغین بھی شریک ہوئے۔ ایک مبلغ نے موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھانے کی خاطر وعظ و نصیحت شروع کی اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے لگا۔ وہیں پر ایک شکاری کتا بھی بندھا ہوا تھا۔ جیسے ہی اس بدبخت نے ذات اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دشنام طرازی شروع کی، کتے نے ایک زقند بھر کر اس کی ناک اور منہ کو بھنبھوڑ ڈالا کافی تگ و دو کے بعد کتے کو علیٰحدہ کیا گیا۔ مجمع میں سے کچھ لوگوں نے اس عیسائی سے پوچھا کہیں کتے نے تیری اس حرکت کی وجہ سے (نعوذباللہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے) تو تجھ پر حملہ نہیں کیا؟
عیسائی نے کہا بالکل نہیں، اصل میں یہ ایک غیرت مند کتا ہے، میں نے بات کرتے ہوئے اس کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا تھا، اس نے سمجھا میں اسے مارنا چاہتا ہوں، اس لئے یہ مجھ پر حملہ آور ہو گیا۔
اس کے بعد مشنری نے دوبارہ شانِ رسالت میں گستاخی شروع کر دی، اب کی بار کتنے نے رسی تڑا کر اس کی گردن میں دانت گاڑ دئیے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک وہ مر نہ گیا۔ موقع پر موجود یا اس واقعہ کو سننے والے لوگوں میں سے چالیس ہزار لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔
(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment