جمعۃالمبارک ، 14 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
پاکستانی معیشت کے زوال اور انحطاط کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ امریکہ کی جنگ، کرپشن، لوٹ مار، بے ایمانی، بدعنوانی، کام چوری اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔ اس کے باوجود بھی پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہے، صحیح و سلامت اور مضبوط و مستحکم ہے۔ اس کا سب سے بڑا اور پہلا سبب ربِ کائنات کا خاص فضل و کرم اور دوسرا پاکستان کی زراعت ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ جس میں صنعت نے برق رفتاری سے ترقی کی۔ آج پاکستان میں جو ترقی و خوشحالی نظر آ رہی ہے اس میں زیادہ حصہ شاید انڈسٹری کا ہے۔ انڈسٹری بڑے شہروں سے ہوتی ہوئی قصبوں اور دیہات تک پھیل چکی ہے۔ صنعت کے بل بوتے پر ہمارا وطن ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا آسمان کی بلندیوں کو چھونے کو تھا کہ کرپشن اسے دیمک بن کر چاٹنے لگی۔ بدانتظامی اور بدنیتی قوم کی قسمت پر برق بن کر گر گئی۔ صنعت کی رگوں میں خون رواں رکھنے کے لئے بجلی اور گیس اولین ضرورت ہیں۔ آج ملک میں دونوں کی قلت کر کے صنعت کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ چھوٹے موٹے کاروبار بھی اندھیروں میں ڈوب گئے۔ ایسے نامساعد حالات میں ملکی معیشت کو زراعت نے سہارا دے رکھا ہے۔ گذشتہ یا موجودہ حکومتیں جو بھی دعوے کریں تعلیم اور صحت کے شعبوں سے بھی زیادہ زراعت کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود خدا کی رحمت سے زمیندار کسان اور کاشتکار دن رات ایک کر کے ملک کو اجناس اور لائیو سٹاک میں خودکفیل کئے ہوئے ہے۔ گندم گنا کپاس چاول اور دیگر اجناس ملکی ضروریات سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اتنی زیادہ کہ سنبھالے نہ سنبھلتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس کا فائدہ پیدا کرنے والے کو کم مڈل مین کو زیادہ ہوتا ہے۔ مڈل مین بھی پاکستانی ہے۔ اس نے کمائی کر لی تو کوئی بڑا جرم نہیں ظلم یہ ہے کہ بعض اوقات گندم جیسی جنس برآمد نہ ہونے سے گل سڑ جاتی ہے اور اکثر ضرورت سے زیادہ برآمد کر کے دگنے نرخ پر درآمد کر لی جاتی ہے۔ یہ مس مینجمنٹ نہیں۔ ایسا کرنے والوں پر دو جمع دو چار کی طرح صورت حال بالکل واضح ہوتی ہے۔ سب کچھ حرام خوری کے لئے کیا جاتا ہے۔
دو ہفتے قبل پیاز کی قیمت 80، 90 روپے فی کلو تھی آج 35 روپے ہے۔ جب سارا پیاز بھارت کو بیچ دیا تو قیمت چڑھ گئی۔ برآمد رُکی تو قیمت معمول پر آ گئی، پرسوں وزارت خوراک و پیداوار نے بھارت کو پیاز برآمد نہ کرنے کا عہد کیا کل وزیراعظم نے پھر ایکسپورٹ کی اجازت دیدی۔ آنیوالے کل نئی قیمتوں کا اندازہ لگا لیجئے اور ذمہ دار کا بھی تعین فرما لیجئے۔
زمینداروں پر ٹیکس لگانے کی بات ہوتی ہے ہزاروں ایکڑ ملکیت رکھنے والے جاگیرداروں کی تعداد لاکھوں ہزاروں نہیں سینکڑوں ہو سکتی ہے۔ ان سے آپ کتنا ٹیکس لے لیں گے۔ ایک جاگیردار سے ایک ارب لے لیں گے؟ وہ دس ارب قرض لے کر اپنا ’’خسارہ‘‘ پورا کریگا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ قرض لے کر معاف کرانا ہمارا کلچر ہے۔ ہو سکے تو جاگیریں توڑیں، ٹیکس کا نفاذ کوئی حل نہیں۔ کسی پر بھی چھوٹوں پر نہ بڑوں پر، غریبوں پر نہ امیروں پر۔
وزیر خزانہ حفیظ شیخ کہتے ہیں بڑے لوگوں سے ٹیکس وصولی ان کے بس کی بات نہیں۔ اس کے باوجود بڑے زور شور سے مطالبہ ہوتا ہے کہ امیروں پر ٹیکس لگایا جائے اول تو کسی میں ہمت نہیں کہ امیروں پر ٹیکس لگائے مروجہ حالات میں ایسا ہو بھی جائے تو لمبے ہاتھوں والے اسے خوش آمدید کہیں گے۔ ان پر ایک فیصد ٹیکس لگا تو وہ عام آدمی کی طرف 10 فیصد کی صورت میں منتقل کر دیں گے۔ چینی کی فی کلو قیمت پر ایک روپیہ ٹیکس لگا کر دیکھ لیں نتیجہ آپ کے سامنے آ جائے گا۔ صنعتوں کی بحالی ضرور اور ہر صورت ہونی چاہئے تاہم ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی زراعت پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ نہ صرف نئے ٹیکس لگانے کا نہ سوچا جائے بلکہ کسانوں کو آڑھتی کے ستم سے بچانے کے لئے بلاسود قرضے دئیے جائیں۔ خالص ادویات اور سستے بیج کی فراہمی یقینی بنائی اور پانی کی وافر فراہمی کا بھی اہتمام کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment