About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, January 27, 2011

جنازہ ایکسپریس

 جمعرات ، 27 جنوری ، 2011

فضل حسین اعوان ـ
لاہور جیسے پنجاب کے کئی شہروں کی طرح فیصل آباد میں بھی مسلم لیگ ن کا ہولڈ ہے۔ 2008ء کے الیکشن میں مسلم لیگ نے فیصل آباد میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ کچھ میاں صاحبان کے نام پر اور کچھ رانا ثناء اللہ خان کی مونچھوں کے زور پر۔ یوں تو چودھری ظہیرالدین جو کبھی رانا ظہر الدین ہوا کرتے تھے، اُن کی بھی مونچھیںلارجیت اور جارحیت میں کم نہیں لیکن وہ نہ رنگنے کی وجہ سے سفید ہو گئیں تو شاید اس علاقے کے ووٹر کا سفید خون کی طرح احساس بھی سفید ہو گیا۔ ماضی کے رانا حال کے چودھری اور مستقبل کے ممکنہ میاں ظہیر الدین کی اپنی سیٹ تو بچ گئی تاہم ق لیگ کو فیصل آباد سے دیس نکالا مل گیا۔ چودھری ظہیر بڑے کام، نام ،دام اور پرنام کے سیاستدان ہیں۔ بڑی بات ہے کہ ق لیگ کے خالی دامن سے وابستہ ہیں۔ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہیں یا امید بہار رکھتے ہوئے کسی شجر سے پیوستہ ہیں۔ سیاست میں چونکہ کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ الیکشن بھی سمجھئے سر پر ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کی مراعات ختم ہو جائیں گی۔ پھر رڑا میدان، پانی کے بغیر مچھلی، رخ انور واپس مسلم لیگ ن کی طرف ہو سکتا ہے۔ بات رانا سے چودھری تک آئی پھر آفتاب زرین اور زری کے طلوع تک میاں تک پہنچ جائے گی۔ فیصل آباد کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا پھر مسلم لیگ ن کی گود بنا، گزشتہ سے پیوستہ الیکشن میں ق لیگ کی آغوش بن گیا۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں پھرمسلم لیگ ن کا اجارہ ہے۔ خاص طور پر شہر میں لیکن یہاں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی۔ اعجاز ورک کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد میں طویل تر قیام کے بجائے اپنے حلقے میں اپنے ووٹر کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ وکلاء برادری ان پر اعتبار یہ اُس پر انحصار کرتے ہیں۔ مخالفین نے ان کو جنازہ ایکسپریس کا نام دیا ہوا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ کہ وہ کسی کی خوشی میں شامل ہوں، نہ ہوں غمی کے موقع پر ضرور شریک ہوتے ہیں۔ حریف جہاں تک کہتے ہیں کہ ورک صاحب نے گورکنوں کو موبائل لے کر دیئے ہوئے ہیں۔ اِدھر قبر کا آرڈر آیا اُدھر انہوں نے ایم این اے صاحب کا نمبر ملایا۔ ان کی خصوصی توجہ سے ان کے حلقے کی ہر جناز گاہ میں وضو کے لئے پانی اور روشنی کا باقاعدہ انتظام کر دیا گیا ہے۔ اس ایریا کو تجاوزات سے پاک اور صاف ستھرا رکھا جاتا ہے۔
عوام مشرف کی پالیسیوں سے نالاں اور ان کے حاشیہ برداروں کی طرزِ حکمرانی سے پریشاں تھے۔ فروری2008ء میں ووٹ کی طاقت سے مشرف کے کاسہ لیسوں سے پیچھا چھڑایا پھر نواز شریف سے مل کر زرداری صاحب نے مشرف کو بھی ایوان صدر سے مار بھگایا۔ عوام کو جمہوری حکمرانوں سے بڑی توقعات تھیں۔ خوشحالی اور امن کی بحالی کی اس۔ آنگن میں بہاریں، کہکشائیں، رنگ و نو اور روشنیوں کے اترنے کی تمنائیں تھیں لیکن خرائیں اور تاریکیاں مقدر بن گئیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ احساس بڑھتا گیا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو رہا ہے آج یقین ہو گیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہو چکا ہے جن سے دکھوں کے ازالہ کی امید تھی وہ دردوں اور تکلیفوں میں اضافہ کئے جا رہے ہیں۔ مشرف کی پالیسیوں پر دل و جان سے عمل جاری ہے، لوگ مر رہے ہیں۔ بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین کے جنازے اٹھ رہے ہیں ۔ کراچی اور بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ سے لاشے بکھرتے ہیں تو قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور آپس کی لڑائی سے۔ باقی کسر خود کش حملوں سے پوری ہو جاتی ہے۔ پورے ملک میں کہیں علاج نہ ہونے سے جنازہ اٹھتا ہے کہیں بیروز گاری اور غربت سے تنگ آ کر اپنے ہاتھوں جان لینے والوں کا۔ ارد گرد دیکھئے سہرا بندی سے زیادہ کفن بندی کا اہتمام ہوتا ہے۔ جنازے دیکھ کر بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے خدایا ہم نے جن کو مسیحا سمجھ کر منتخب کیا وہ لاشوں اور جنازوں کے سوداگر اور بیوپاری نکلے۔ زیادہ ہلاکتیں ڈرون خود کش اور بم دھماکوں سے ہوتی ہیں، جنازوں اور لاشوں کے بیوپاری اس جنگ سے پاکستان کو الگ کر لیں تو یقینا باراتیں زیادہ چڑھیں جنازے کم اٹھیں۔

No comments:

Post a Comment