ہفتہ ، 15 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
ایک لمحے ہماری جمہوریت ہوا کے دوش پر رکھے چراغ کی طرح ابھی بجھا کہ ابھی بجھا کی تصویر بنی نظر آتی ہے تو دوسرے لمحے سنگ و آہن کی مضبوط اور ناقابلِ تسخیر دیوار، ہماری سیاست میں خفیہ کاری معجز نما سیاست کی بھی موجد ہے۔ خفیہ ہاتھ سرگرم ہوں تو جس پارٹی یا اتحاد پر چاہیں نوازش کر دیں۔ جسے چاہیں تاجور بنا دیں جس کی چاہیں گرد اور دھول اڑا دیں۔ مشرف نے 2002ءمیں خفیہ ہاتھ متحرک کر کے مرضی کے نتائج حاصل کئے تو جنرل کیانی نے اس ہاتھ کو مروڑ کر 2008ءمیں دوسری بار مشرف اور ان کے حاشیہ برداروں اور کاسہ لیسوں کے منصوبے بھسم کر ڈالے۔ اگلے الیکشن 2013ءمیں ہوں یا کسی فریاد اور افتاد کی صورت میں اس سے قبل جنرل کیانی ایک بار پھر شاید خفیہ ہاتھ کو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی اجازت نہ دیں۔ اس کا ادراک جی ایچ کیو کی طرف دست بستہ نظر کرم کے منتظر عادی سیاست کاروں کو بھی ہے۔ اس لئے اگلے الیکشن کے لئے ابھی سے صف بندیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی بینظیر سپورٹ سکیم کو کامیابی کی کلید سمجھ رہی ہے۔ زرداری صاحب حوصلے میں ہیں اور ساتھیوں کو تسلی دیتے ہیں کہ الیکشن کے لئے نگران حکومت بھی وہ بنائیں گے اور صدر بھی وہی ہوں گے۔ مسلم لیگ ن زرداری اور نواز شریف ایک ہیں کا طعنہ سننے کے باوجود اپنی کارکردگی سے زیادہ پیپلز پارٹی کی غلطیوں سے فائدہ اٹھانے کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ مسلم لیگ ق غیبی امداد کے سہارے اور اشارے کی منتظر ہے۔ ان تینوں بڑی پارٹیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی غیر محسوس طریقے سے بڑی خاموشی کے ساتھ متحدہ مجلسِ عمل کی شیرازہ بندی ہے۔ 2008ءکے انتخابات کے بعد متحدہ مجلس عمل بکھری تو تین میں رہی نہ تیرہ میں۔ الیکشن کے بعد اس کی بحالی کی کوششیں ضرور ہوئیں جن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مولانا فضل الرحمن سے حکومت سے علیحدگی کی شرط تھی۔ پرانے ساتھیوں کی باتوں میں آ کر اقتدار کو ٹھوکر مار دیں، پھر حضرت مولانا سیاستدان تو نہ ہوئے، بائیکاٹیے عمران اور قاضی ہو گئے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمن کو گیلانی کا دیا ہوا دھکا راس آ گیا ہے۔ شاید کان میں کسی نے پھونک بھی مار دی ہو کہ حضرت اگلے وزیراعظم آپ ہی ہیں۔ حکومت سے الگ ہونے کے بعد وہ پھسلتے تو ضرور دکھائی دیتے ہیں لیکن جلد سنبھل بھی جاتے ہیں۔ وہ اپوزیشن سیٹوں پر ہوتے ہوئے بھی کچھ کچھ حکومت میں بھی ہیں۔ خود کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں، اب عطاءالرحمن الیکشن کمشن کی پارلیمانی کمیٹی میں حکومتی رکن کے طور پر شامل ہو گئے ہیں۔ اب پراڈو بدستور استعمال کر سکتے ہیں۔ مجلسِ عمل بحال ہوتی ہے تو مولانا فضل الرحمن کی شمولیت کی راہ میں کوئی خاص امر مانع نہیں۔ 2002ءکے انتخابات میں مجلس عمل تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ اس نے امریکی جنگ کو کفر اور اسلام کی جنگ قرار دیکر ووٹر کو اپنی جانب مائل تھا۔ وہ جنگ پہلے سے بھی زیادہ بھیانک اور خوفناک شکل اختیار کر چکی ہے اس کے ساتھ ہی تحفظِِ ناموس رسالت کے حوالے سے مذہبی جماعتیں عام آدمی کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے سڑکوں پر ہیں۔ 9 جنوری کو کراچی میں عظیم الشان ناموسِ رسالت ریلی کے شرکاءکی تعداد اور جوش و خروش نے مجلس عمل کی بحالی کی راہیں کھول دی ہیں۔ گزشتہ روز پوپ کے بیان کے خلاف جس طرح مظاہرے ہوئے وہ بھی مجلس عمل کے پرانے رہنماﺅں کے لئے حوصلے کا باعث ہیں۔ اگر پرانی مجلس عمل نئے ایجنڈے کے ساتھ میدانِ عمل میں آ گئی تو پاکستانی سیاست کو نئے راستوں پر گامزن ہونے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ مجلس عمل بحال ہو کر الیکشن میں آتی ہے تو کسی بھی پارٹی کا مقدر خاک میں ملا سکتی ہیں۔ مجلس عمل میں ہر مسلک کے لوگ شامل ہیں ان کی طرح کوئی بھی پارٹی انتخابی مہم نہیں چلا سکتی۔ ان کی رسائی مسجد کے امام اور خطیب کے توسط سے ہر پاکستانی تک ہے۔
No comments:
Post a Comment