جمعۃالمبارک ، 21 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
بات دنیا جہاں کی ہو یا معاشرے طبقے یا کسی حلقے کی۔ ان میں باصفا اہلِ دل اور باوفا لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں۔ تاہم عمومی طور پر ہمارا معاشرہ ہر پھٹکار کا شکار ہے۔ جس میں ایک خواہ مخواہ کا روگ حسد ہے جو ہم دل جلانے کے لئے پال لیتے ہیں۔ سائیکل والے کو موٹر سائیکل والا دُکھتا ہے موٹر سائیکل والے کا گاڑی والے کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ چھوٹی گاڑی والے کو بڑی گاڑی والا زہر دکھائی دیتا ہے۔ ریڑھی، رکشے والا سب کو دیکھ کر بغض کا ہمالہ بن جاتا ہے۔ دوسرے کا اچھا مکان، کاروبار، دکان فصل مال مویشی چبھتے ہیں۔ اونچے مقام پر بیٹھا بھی نیچے والوں کو نگاہِ ناز اور فخر وانبساط سے دیکھتا ہے۔جس سے حسد کیا جائے اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا صرف اپنے اندر کی آگ ہے جو تن من کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھتی ہے۔ حسد کے بجائے رشک کیا جائے اور ماشاء اللہ کہہ دیا جائے تو نیکی برباد ہونے سے بچ جاتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ماشاء اللہ کہنے سے ہم پر نظر عنایت کر دے۔ یہ تہمید باندھنے کی ضرورت امیر کویت کی طرف سے اپنے ملک کی گولڈن جوبلی کے موقع پر شہریوں پر نوازشات کی برسات پر پیش آئی۔ امیر صباح الحمد الجابر الصباح نے ہر شہری کو ایک ہزار دینار یعنی 3 لاکھ روپے اور سال بھر کا راشن دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ انعامات یکم فروری کو پیدا ہونے والے بچے تک کو بھی ملیں گے‘ ماشاء اللہ۔
امیر کویت نے یہ اعلان پچاسویں سالگرہ پر کیا ہم نے پانچ ماہ قبل قائداعظم کے پاکستان کی 63ویں سالگرہ جس طرح کرب، دکھ، بارود کی بو، سیلاب زدگان کی بے بسی، ہر پاکستانی کی بے کسی، مہنگائی بدامنی، بیروزگاری، بدنظمی، بدعملی اور حکومت کی بے حسی میں منائی اس کا ہم سب کو علم ہے۔ کویت کی آبادی دس سوا دس لاکھ ہے۔ بلاشبہ اس کے پاس بے بہا وسائل ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کو آسانی سے نواز سکتے ہیں۔ ہمارے حکمران کچھ نہیں کر سکتے۔ آبادی 17 کروڑ اوپر سے قرضوں کا انبار۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے بنکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ آج پاکستان 107 کھرب روپے کا مقروض ہے۔ یعنی ہر پیدا ہونے والے بچے کے سر 60 ہزار روپے کا قرض ہوتا ہے۔ ہم تو قرض بھی قرض لے کر اتار رہے ہیں تو سالگرہ پر عوام کو تیل کی قیمت میں دس پندرہ روپے کمی کا تحفہ بھی نہیں دے سکتے۔ البتہ نیٹو کو ہمارے شہریوں پر یلغار کرنے کے لئے فی لیٹر 32 روپے گفٹ ضرور کر رہے ہیں۔
ایماندار، دیانتدار، اہل اور قوم کا درد رکھنے والے حکمران ہوں تو ہر سالگرہ پر تین لاکھ کیا پانچ لاکھ روپے ہر شہری پر نچھاور کئے جاسکتے ہیں۔ ہمارے وسائل کویت کے مقابلے میں ہزار گنا سے بھی زائد ہیں۔ سونا اگلتی زمینیں آپ کے لئے وافر مقدار میں خوراک پیدا کر رہی ہیں۔ زمین کے اندر تیل گیس اور کوئلے کے نہ ختم ہونے والے ذخائر ہیں۔ پہاڑ سونا چاندی اور یورینیم جیسی دھاتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ دنیا کا قیمتی پتھر بھی اس دھرتی کے پیٹ میں ہے۔سمندر کی گود میں لعل و جواہر موجود ہیں ہم پھر بھی کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی رحلت کے بعد ہمیں عموماً تنگ دل اور سنگ دل نام نہاد لیڈرشپ ملی۔ اگر اخلاص نہ ہو، اپنا پیٹ آگے دوسروں کا احساس نہ ہو تو سارے پہاڑ سونے کے بھی بن جائیں تو بھی لوٹ مار کرتے جی نہیں بھر سکتا۔ آج کی اشرافیہ کے دینے والے ہاتھ نہیں لینے والے ہیں۔ ان جیسا ایک نہر میں گر گیا۔ ایک ہمدرد نے نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ہاتھ دو۔ ڈوبنے والے نے ہاتھ مزید دور کر لیا۔ مددگار نے کہا ہاتھ لو تو فوراً ہاتھ آگے بڑھا کر پکڑا دیا۔ ہمارے حکمران دوسروں کو وہ چیز دیتے ہیں جو ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ وزیراعظم نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا سیاسی رواداری کے تحت اپنی داڑھی اپوزیشن لیڈر کے ہاتھ میں دیدی۔ ملاحظہ فرمائیے جو چیز صدر اور وزیراعظم کے پاس ہے ہی نہیں وہ اپوزیشن لیڈر کے ہاتھ میں دیدی۔
ماہرین کہتے ہیں پاکستان میں سالانہ ایک ہزار ارب کی لوٹ مار ہوتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اربوں کی کرپشن ثبوتوں کے ساتھ سامنے نہ آتی ہو۔ اگر کرپشن کا بازار بند ہو جائے اورایمانداری سے وسائل بروئے کار لائے جائیں تو یقین جانئے ہر پاکستانی خوشحال اور نہال ہو جائے۔ حکومت پانچ لاکھ دینے پر اصرار کرے اور کوئی لینے والا نہ ہو، ماشاء اللہ۔
فضل حسین اعوان
بات دنیا جہاں کی ہو یا معاشرے طبقے یا کسی حلقے کی۔ ان میں باصفا اہلِ دل اور باوفا لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں۔ تاہم عمومی طور پر ہمارا معاشرہ ہر پھٹکار کا شکار ہے۔ جس میں ایک خواہ مخواہ کا روگ حسد ہے جو ہم دل جلانے کے لئے پال لیتے ہیں۔ سائیکل والے کو موٹر سائیکل والا دُکھتا ہے موٹر سائیکل والے کا گاڑی والے کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ چھوٹی گاڑی والے کو بڑی گاڑی والا زہر دکھائی دیتا ہے۔ ریڑھی، رکشے والا سب کو دیکھ کر بغض کا ہمالہ بن جاتا ہے۔ دوسرے کا اچھا مکان، کاروبار، دکان فصل مال مویشی چبھتے ہیں۔ اونچے مقام پر بیٹھا بھی نیچے والوں کو نگاہِ ناز اور فخر وانبساط سے دیکھتا ہے۔جس سے حسد کیا جائے اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا صرف اپنے اندر کی آگ ہے جو تن من کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھتی ہے۔ حسد کے بجائے رشک کیا جائے اور ماشاء اللہ کہہ دیا جائے تو نیکی برباد ہونے سے بچ جاتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ماشاء اللہ کہنے سے ہم پر نظر عنایت کر دے۔ یہ تہمید باندھنے کی ضرورت امیر کویت کی طرف سے اپنے ملک کی گولڈن جوبلی کے موقع پر شہریوں پر نوازشات کی برسات پر پیش آئی۔ امیر صباح الحمد الجابر الصباح نے ہر شہری کو ایک ہزار دینار یعنی 3 لاکھ روپے اور سال بھر کا راشن دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ انعامات یکم فروری کو پیدا ہونے والے بچے تک کو بھی ملیں گے‘ ماشاء اللہ۔
امیر کویت نے یہ اعلان پچاسویں سالگرہ پر کیا ہم نے پانچ ماہ قبل قائداعظم کے پاکستان کی 63ویں سالگرہ جس طرح کرب، دکھ، بارود کی بو، سیلاب زدگان کی بے بسی، ہر پاکستانی کی بے کسی، مہنگائی بدامنی، بیروزگاری، بدنظمی، بدعملی اور حکومت کی بے حسی میں منائی اس کا ہم سب کو علم ہے۔ کویت کی آبادی دس سوا دس لاکھ ہے۔ بلاشبہ اس کے پاس بے بہا وسائل ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کو آسانی سے نواز سکتے ہیں۔ ہمارے حکمران کچھ نہیں کر سکتے۔ آبادی 17 کروڑ اوپر سے قرضوں کا انبار۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے بنکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ آج پاکستان 107 کھرب روپے کا مقروض ہے۔ یعنی ہر پیدا ہونے والے بچے کے سر 60 ہزار روپے کا قرض ہوتا ہے۔ ہم تو قرض بھی قرض لے کر اتار رہے ہیں تو سالگرہ پر عوام کو تیل کی قیمت میں دس پندرہ روپے کمی کا تحفہ بھی نہیں دے سکتے۔ البتہ نیٹو کو ہمارے شہریوں پر یلغار کرنے کے لئے فی لیٹر 32 روپے گفٹ ضرور کر رہے ہیں۔
ایماندار، دیانتدار، اہل اور قوم کا درد رکھنے والے حکمران ہوں تو ہر سالگرہ پر تین لاکھ کیا پانچ لاکھ روپے ہر شہری پر نچھاور کئے جاسکتے ہیں۔ ہمارے وسائل کویت کے مقابلے میں ہزار گنا سے بھی زائد ہیں۔ سونا اگلتی زمینیں آپ کے لئے وافر مقدار میں خوراک پیدا کر رہی ہیں۔ زمین کے اندر تیل گیس اور کوئلے کے نہ ختم ہونے والے ذخائر ہیں۔ پہاڑ سونا چاندی اور یورینیم جیسی دھاتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ دنیا کا قیمتی پتھر بھی اس دھرتی کے پیٹ میں ہے۔سمندر کی گود میں لعل و جواہر موجود ہیں ہم پھر بھی کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی رحلت کے بعد ہمیں عموماً تنگ دل اور سنگ دل نام نہاد لیڈرشپ ملی۔ اگر اخلاص نہ ہو، اپنا پیٹ آگے دوسروں کا احساس نہ ہو تو سارے پہاڑ سونے کے بھی بن جائیں تو بھی لوٹ مار کرتے جی نہیں بھر سکتا۔ آج کی اشرافیہ کے دینے والے ہاتھ نہیں لینے والے ہیں۔ ان جیسا ایک نہر میں گر گیا۔ ایک ہمدرد نے نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ہاتھ دو۔ ڈوبنے والے نے ہاتھ مزید دور کر لیا۔ مددگار نے کہا ہاتھ لو تو فوراً ہاتھ آگے بڑھا کر پکڑا دیا۔ ہمارے حکمران دوسروں کو وہ چیز دیتے ہیں جو ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ وزیراعظم نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا سیاسی رواداری کے تحت اپنی داڑھی اپوزیشن لیڈر کے ہاتھ میں دیدی۔ ملاحظہ فرمائیے جو چیز صدر اور وزیراعظم کے پاس ہے ہی نہیں وہ اپوزیشن لیڈر کے ہاتھ میں دیدی۔
ماہرین کہتے ہیں پاکستان میں سالانہ ایک ہزار ارب کی لوٹ مار ہوتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اربوں کی کرپشن ثبوتوں کے ساتھ سامنے نہ آتی ہو۔ اگر کرپشن کا بازار بند ہو جائے اورایمانداری سے وسائل بروئے کار لائے جائیں تو یقین جانئے ہر پاکستانی خوشحال اور نہال ہو جائے۔ حکومت پانچ لاکھ دینے پر اصرار کرے اور کوئی لینے والا نہ ہو، ماشاء اللہ۔
No comments:
Post a Comment