جمعرات ، 20 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
فضل حسین اعوان
مخدوم سائیں 2008ء کی انتخابی مہم کے آغاز میں بہاولپوری و لاہوری مہمانوں کے ساتھ ڈرائنگ میں بیٹھے دبئی کی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ سائیں کہیں جانے کیلئے تیار بیٹھے تھے کہ یہ دوست جا پہنچے مہمانوں نے کوٹھی کے درمیان میں زیر تعمیر دیوار کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ الیکشن کی تیاری کیلئے آدھا حصہ بیچنا ہے۔ کوٹھی کا آدھا حصہ بکا‘ نہیں بکا‘ کتنے کا بکا؟ اس بارے میں تاریخ خاموش ہے تاہم دیوار موجود نہیں اور پوری کوٹھی پرانے مالکوں کی ملکیت ہی ہے۔ راوی کا کہنا ہے کہ گپ شپ کے دوران پیر سائیں نے ایک بارعب عمر رسیدہ شخص کو کھڑکی کے شیشے سے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھتے دیکھا تو عجلت میں یہ کہتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے ’’انہیں بٹھائیے گا میں ابھی آیا۔‘‘ چند منٹ بعد واپس آئے تو سلیپنگ سوٹ پہنا ہوا تھا۔ چہرے کے ایک طرف شیونگ کریم کی جھاگ لگی اور ہاتھ میں شیونگ برش تھا۔ نئے مہمان کا ’’پرتپاک استقبال‘‘ کرتے ہوئے کہا ’’میں ابھی آپ کی طرف نکلنے والا تھا اچھا ہوا آپ چلے آئے۔‘‘
مولانا فضل الرحمن اور الطاف حسین نے حکومت کا ساتھ چھوڑا تو گیلانی صاحب باقاعدہ پریشر میں دکھائی دئیے۔ اکثریت اقلیت میں بدلی تو اپنی سیٹ برقرار رکھنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا قدرتی امر تھا۔ پھر تمام قابل ذکرق پارٹیوں نے تیل کی قیمتیں فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا تو حکومت اس پر بادل نخواستہ تیار ہو گئی۔ پھر ایم کیو ایم ساتھ ملی تو اکثریت بھی بحال اور وقتی طور پر حکومت کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا مل گیا۔ تیل کی قیمتیں کم ہوئیں تو نواز شریف نے حوصلہ پکڑا اور دس نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا۔ ہاں یا ناں کیلئے وزیراعظم گیلانی کو 6 دن کی مہلت اور ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے 45 دن کی ڈیڈ لائن دی گئی۔ وزیراعظم ہاں یا ناں کے مخمصے میں تھے کہ ایک دن نواز شریف نے فرما دیا کہ ڈیڈ لائن کا لفظ ان کی ڈکشنری میں نہیں۔ گیلانی صاحب کو اس بیان سے حوصلہ ملا۔ تو انہوں نے چوتھے دن ہاں کہہ دی۔ کچھ سچائیاں وقت گزرنے کے ساتھ خود بخود عیاں ہو جاتی ہیں۔ دروغ برگردن مجاہد لاہو پرانے وقتوں کی بات ہے بی بی سی کے نمائندہ نے نواز شریف سے ان کے گھر میں لائبریری سے متعلق استفسار کیا تو میاں صاحب نے فرمایا تھا لائبریری نہیں ہے۔ اب میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ ان کی ڈکشنری میں ڈیڈ لائن کا لفظ نہیں ہے تو ثابت ہو گیا کہ ان کے ہاں لائبریری موجود ہے جس میں کچھ اور ہو نہ ہو وہ ڈکشنری ضرور موجود ہے جس میں ڈیڈ لائن کا لفظ نہیں۔
آج ملک میں دو طبقے پائے جاتے ہیں۔ مہنگائی بے روزگاری اور بدامنی کی آگ میں جھلسنے والا دوسرا طبقہ جسے اشرافیہ کہا جا سکتا ہے۔ اکثر کا تعلق حکمران طبقے سے ہے۔ ان کے رہن سہن‘ کردار عمل حتیٰ کہ باڈی لینگوئج سے بھی کوئی پریشانی اور پشیمانی نہیں ٹپکتی۔ مطمئن‘ پرسکون گلنار چہرے‘ مسکراہٹیں قہقہے‘ بھرپور زندگی انجوائے کر رہے ہیں۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی حسرت لئے حکمرانوں کو دباؤ پر مجبوراً تیل کی قیمتیں کم کرنا پڑیں تو تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ بدستور اپنی جگہ پر موجود ہے۔ بلکہ گھی‘ ایل پی جی‘ سبزیوں خصوصی طور پر پیاز اور ریلوے کرایوں میں تو مزید اضافہ ہو گیا۔ ٹیکسوں میں مزید اضافے کا حکومتی ایوانوں میں واویلا جاری ہے۔ وزیراعظم نے نواز شریف کے ایجنڈے کا ’’پرتپاک استقبال‘‘ کیا تھا لیکن گذشتہ روز حکومتی ٹیم نے نواز شریف کے ایجنڈے کے حوالے سے کہہ دیا کہ اس پر عملدرآمد کیلئے خصوصی ٹائم فریم نہیں دے سکتے۔ تو کیا وزیراعظم نے جو ہاں کی تھی وہ سب چکر تھا اور نواز شریف کے 45 دن؟
آج پاکستان میں پھیلی ہر بیماری اور مرض کی وجہ کرپشن ہے۔ اگر حکومت نواز شریف کو ان کے 10 نکاتی ایجنڈے پر چکر دے رہی ہے تو نواز شریف صرف کرپشن کے خاتمے کا ایک نکاتی ایجنڈا لے کر آگے بڑھیں پوری قوم ان کے ہمقدم ہو گی۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ قوم کہتی تھی قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں 12 اکتوبر 99ء کو پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نظر نہ آیا۔ میاں صاحب کو غلط فہمی دور کر لینی چاہئے کہ وہ آواز قوم کی نہیں تھی۔ ان کی کچن کیبنٹ اور فصلی بٹیروں کی تھی۔ جو مشکل وقت میں ان کو تنہا چھوڑ کر کسی ہری بھری شاخ پر جا بیٹھے تھے۔ کرپشن آج بہت بڑا ناسور بن چکا ہے۔ قوم اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔ آپ قدم بڑھائیں قوم آپ کے ساتھ ہو گی۔ وہ ڈکشنری خرید لیں جس میں ڈیڈ لائن کا لفظ ہے۔ 45 دن کی ڈیڈ لائن پر ڈٹ جائیں جس میں اب صرف 35 دن باقی بچے ہیں۔ سید بادشاہ کے چکر میں نہ آئیں۔ آپ خود بادشاہ ہیں۔ ماشاء اللہ
مولانا فضل الرحمن اور الطاف حسین نے حکومت کا ساتھ چھوڑا تو گیلانی صاحب باقاعدہ پریشر میں دکھائی دئیے۔ اکثریت اقلیت میں بدلی تو اپنی سیٹ برقرار رکھنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا قدرتی امر تھا۔ پھر تمام قابل ذکرق پارٹیوں نے تیل کی قیمتیں فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا تو حکومت اس پر بادل نخواستہ تیار ہو گئی۔ پھر ایم کیو ایم ساتھ ملی تو اکثریت بھی بحال اور وقتی طور پر حکومت کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا مل گیا۔ تیل کی قیمتیں کم ہوئیں تو نواز شریف نے حوصلہ پکڑا اور دس نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا۔ ہاں یا ناں کیلئے وزیراعظم گیلانی کو 6 دن کی مہلت اور ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے 45 دن کی ڈیڈ لائن دی گئی۔ وزیراعظم ہاں یا ناں کے مخمصے میں تھے کہ ایک دن نواز شریف نے فرما دیا کہ ڈیڈ لائن کا لفظ ان کی ڈکشنری میں نہیں۔ گیلانی صاحب کو اس بیان سے حوصلہ ملا۔ تو انہوں نے چوتھے دن ہاں کہہ دی۔ کچھ سچائیاں وقت گزرنے کے ساتھ خود بخود عیاں ہو جاتی ہیں۔ دروغ برگردن مجاہد لاہو پرانے وقتوں کی بات ہے بی بی سی کے نمائندہ نے نواز شریف سے ان کے گھر میں لائبریری سے متعلق استفسار کیا تو میاں صاحب نے فرمایا تھا لائبریری نہیں ہے۔ اب میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ ان کی ڈکشنری میں ڈیڈ لائن کا لفظ نہیں ہے تو ثابت ہو گیا کہ ان کے ہاں لائبریری موجود ہے جس میں کچھ اور ہو نہ ہو وہ ڈکشنری ضرور موجود ہے جس میں ڈیڈ لائن کا لفظ نہیں۔
آج ملک میں دو طبقے پائے جاتے ہیں۔ مہنگائی بے روزگاری اور بدامنی کی آگ میں جھلسنے والا دوسرا طبقہ جسے اشرافیہ کہا جا سکتا ہے۔ اکثر کا تعلق حکمران طبقے سے ہے۔ ان کے رہن سہن‘ کردار عمل حتیٰ کہ باڈی لینگوئج سے بھی کوئی پریشانی اور پشیمانی نہیں ٹپکتی۔ مطمئن‘ پرسکون گلنار چہرے‘ مسکراہٹیں قہقہے‘ بھرپور زندگی انجوائے کر رہے ہیں۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی حسرت لئے حکمرانوں کو دباؤ پر مجبوراً تیل کی قیمتیں کم کرنا پڑیں تو تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ بدستور اپنی جگہ پر موجود ہے۔ بلکہ گھی‘ ایل پی جی‘ سبزیوں خصوصی طور پر پیاز اور ریلوے کرایوں میں تو مزید اضافہ ہو گیا۔ ٹیکسوں میں مزید اضافے کا حکومتی ایوانوں میں واویلا جاری ہے۔ وزیراعظم نے نواز شریف کے ایجنڈے کا ’’پرتپاک استقبال‘‘ کیا تھا لیکن گذشتہ روز حکومتی ٹیم نے نواز شریف کے ایجنڈے کے حوالے سے کہہ دیا کہ اس پر عملدرآمد کیلئے خصوصی ٹائم فریم نہیں دے سکتے۔ تو کیا وزیراعظم نے جو ہاں کی تھی وہ سب چکر تھا اور نواز شریف کے 45 دن؟
آج پاکستان میں پھیلی ہر بیماری اور مرض کی وجہ کرپشن ہے۔ اگر حکومت نواز شریف کو ان کے 10 نکاتی ایجنڈے پر چکر دے رہی ہے تو نواز شریف صرف کرپشن کے خاتمے کا ایک نکاتی ایجنڈا لے کر آگے بڑھیں پوری قوم ان کے ہمقدم ہو گی۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ قوم کہتی تھی قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں 12 اکتوبر 99ء کو پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نظر نہ آیا۔ میاں صاحب کو غلط فہمی دور کر لینی چاہئے کہ وہ آواز قوم کی نہیں تھی۔ ان کی کچن کیبنٹ اور فصلی بٹیروں کی تھی۔ جو مشکل وقت میں ان کو تنہا چھوڑ کر کسی ہری بھری شاخ پر جا بیٹھے تھے۔ کرپشن آج بہت بڑا ناسور بن چکا ہے۔ قوم اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔ آپ قدم بڑھائیں قوم آپ کے ساتھ ہو گی۔ وہ ڈکشنری خرید لیں جس میں ڈیڈ لائن کا لفظ ہے۔ 45 دن کی ڈیڈ لائن پر ڈٹ جائیں جس میں اب صرف 35 دن باقی بچے ہیں۔ سید بادشاہ کے چکر میں نہ آئیں۔ آپ خود بادشاہ ہیں۔ ماشاء اللہ
No comments:
Post a Comment