جمعرات ، 13 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان ـ
عمران خان کی تحریک انصاف اتنی نئی نہیں کہ جس کے بارے میں کہا جائے کہ ابھی تک پاکستانی اس سے متعارف نہیں ہوئے۔ نہ ہی اتنی پرانی ہے کہ پاکستانی اسے بوسیدہ قرار دے دیں۔ یہ جس بانکپن کے ساتھ پاکستان کے سیاسی آسمان پر نمودار ہوئی۔ اس کا پہلے دن کی طرح آج بھی جوبن برقرار ہے۔ اس میں کمی ہوئی نہ اضافہ۔ اس کی لیڈر شپ پر نظر ڈالی جائے تو عمران سے شروع ہو کر عمران پر ختم ہو جاتی ہے۔ بریگیڈیئر یوسف سے ملت پارٹی میں شمولیت کی وجہ پوچھی تو ان کا جواب تھا فاروق لغاری کی شرافت سے متاثر ہو کر ملت پارٹی جوائن کی۔ لہٰذا جب تک وہ ان کی شرافت اور دیانت کے قائل رہے دل و جان سے ساتھ نبھایا۔ تحریک انصاف سے وابستگان سے یہی سوال کیا جائے تو جواب ملتا ہے ’’عمران نے انتھک، کوشش جدوجہد اور دیانت سے شوکت خانم ہسپتال تعمیر کیا۔ تحریک انصاف تشکیل دی تو ہم اس میں چلے آئے‘‘۔ کھیل اور سیاست الگ الگ میدان عمل ہیں۔کھیل میں ذاتی کردار کی اتنی اہمیت نہیں جتنی سیاست میں ہے تاہم کھیل اور سیاست میں بروقت یا صحیح وقت پر صحیح فیصلے آپ کو دوسرں سے ممتاز اور منفرد کر دیتے ہیں۔ عمران کو کھیل کے میدان میں جو کامیابیاں حاصل ہوئیں سیاست میں اس کا عشر عشیر بھی ان کے حصے میں نہیں آیا۔ ان کی پارٹی میں یا تو کوئی بڑا لیڈر آیا نہیں اگر آیا تو تحریک انصاف میں آ کر چھوٹا ہو گیا اور صرف عمران خان ہی پارٹی کے واحد اور نمایاں لیڈر چلے آ رہے ہیں۔ عمران تحریک انصاف کے چیئرمین ہیں میڈیا کے چند لوگوں کے سوا کتنے لوگوں کو ان کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے نام سے واقفیت ہے؟ جسٹس (ر) وجیہہ الدین بڑی شخصیت ہیں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان کراچی میں تھے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جسٹس صاحب نے تحریک انصاف جوائن کرنے کا فیصلہ کیا یا عمران کراچی اس لئے گئے کہ وجیہہ صاحب نے ان کی پارٹی میں شامل ہونا تھا۔ تاہم جسٹس وجیہہ الدین نے اس موقع پر کہا کہ ’’آج ملک میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ روایتی سیاستدان ملکی ترقی میں رکاوٹ ہیں‘‘۔ تبدیلی کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں لیکن عمران خان میں سوائے کرپشن کے روایتی سیاستدانوں والے تقریباً تمام جواہر موجود ہیں۔ نئی نسل عمران خان کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہے۔ اس کا عمران کو فائدہ صرف متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ جس کا دور دور تک بھی کوئی امکان نہیں۔ عام ووٹر عمران کی طرف کیوں راغب نہیں؟ عام آدمی سیاستدانوں کی کرپشن اور کہہ مکرنیوں سے تنگ ہے۔ کہہ مکرنی کو خوبصورت پیرائے میں یوں بیان کیا جاتا ہے ’’سیاست میں کوئی کچھ حرف آخر نہیں ہوتا‘‘ عمران مشرف کے زبردست حامی رہے اور اتنے ہی بڑے دشمن بن گئے۔ نواز شریف سے کبھی ہاتھ ملاتے اور کبھی روٹھ جاتے ہیں۔ چودھری برادران کو مشرف کا ساتھ دینے پر کیا کیا کہتے رہے۔ اب ان کی چوکھٹ پر بھی چلے گئے۔ الطاف حسین اور ان کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا۔ الطاف حسین کو لندن سے نکلوانے کے بلند بانگ دعوے کئے پھر خاموشی اختیار کر لی۔ خاموشی اختیار کرنا تھی تو دشمنی مول لینے کی کیاضرورت تھی؟ عمران کے چاہنے والے ان کو پاکستان کی قیادت کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ عمران اپنی ادائوں پر غور کریں۔ پینترا بدل سیاست ان کے مستقبل کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوستوں کا مشورہ ہے کہ مستقل مزاجی سے کام لیں پارٹی کے اندر لیڈر شپ کو ابھرنے کا موقع دیں تو شاید عام آدمی مائل بہ تحریک انصاف ہو جائے
No comments:
Post a Comment