18-1-11
فضل حسین اعوان
فضل حسین اعوان
وزیراعظم کی تقریر و تَکَلُّم پر بھی غور فرمایا آپ نے؟ نہیں فرمایا تو اب فرما لیجئے۔ پھر موازنہ کیجئے ان کے آج اور شروع کے خطابات میں، جب وہ وزارتِ عظمٰی کے منصب پر سرفراز ہوئے تھے۔ آپ کو واضح فرق نظر آئے گا۔ پرانی تقریر ٹی وی پر آواز بند کر کے دیکھیں تو لگتا ہے ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ پڑھ رہے ہیں۔ آج کے یوسف رضا گیلانی کا تقریر کرتے ہوئے انگ انگ بولتا ہے۔ ایک ایک لفظ پر تین بار بھی اٹکتے ہیں تو یہ بھی ان کی دانستہ فنکاری کا غماز ہے۔ بات کرتے ہوئے گردن گھمانا، ہاتھ لہرانا، سر جھٹکانا، سب حاضرین کو متاثر کرنے کا انداز ہے… گیلانی صاحب کے کلاس فیلو اور دوست ہونے کے ایک دعویدار کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وزیراعظم نے ان سے ’’فنِ خطابت‘‘ نامی کتاب منگوائی تھی۔ اس کے مطالعہ کے بعد ان کا لب و لہجہ نکھر گیا۔ ان کو بات کرنے کا گُر آ گیا، تقریر کا فن آ گیا۔
آج واقعی گیلانی صاحب کا تقریر کرتے ہوئے جوبن اور بانکپن قابل دید ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ شنید بھی ہے۔ ان کی زبان گل بہار ہو سکتی ہے تو شعلہ بار بھی۔ دوست نے خطابت کے لئے نسخہ کیمیا تو ان کے حوالے کر دیا۔ تقریر میں کہنا کیا ہے۔ اس کی گیلانی صاحب نے پوچھنے کی زحمت کی نہ کسی سیانے نے بتانے کی۔ وہ اب تک اس مخمصے سے نہیں نکل سکے کہ کب گُل کھلانے ہیں کہاں انگارے برسانے ہیں۔ تعزیتی، ماتمی شکل کہاں بنانی ہے اور چہرے پر تازگی و شادمانی کب لانی ہے۔ شاید خود کو بڑا سیاستدان ثابت کرنے کے لئے کہہ دیا تھا جسٹس افتخار کو ججوں کا امام سمجھتا ہوں۔ اس وقت جج بحال نہیں ہوئے تھے۔ اگلے دن شاید کسی نے گھور کر اس سے بڑا سیاستدان بننے کا کلیہ بتا دیا تو گویا ہوئے ’’میں نے ان کو ججوں کا امام نہیں کہا‘‘۔ جھانسی کی رانی کا نام سنا تھا۔ جھانسوں راجہ بھی دیکھ لیا۔ جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی ڈیڈ لائن پہ ڈیڈ لائن دیتا تھا۔ گیلانی صاحب نے بلایا، ڈانٹا اور سمجھایا ’’احمق سیاست میں کبھی ڈیڈ لائن نہیں دیتے‘‘ ڈیڈ لائن لینے کے بارے کچھ نہیں بتایا تھا۔ نوازشریف نے ہاں یا ناں کے لئے تین جمع تین دن کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ گیلانی صاحب نے چوتھے دن ہاں کر دی۔ تاہم 45 دن کا جھانسہ دیا ہوا ہے۔ سو بار کہا عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں ان پر عمل کریں گے۔ شاید فیصلے منگوا کر ان کو چوم کر محترمہ کی تصویر کے فریم کے برابر لٹکا دیتے ہوں۔ اس سے زیادہ احترام کیا ہو سکتا ہے جب اتنا احترام ہے تو عمل کی کیا ضرورت۔ ویسے بھی ان کی نظر میں پارلیمنٹ سُپر ہے۔ جب پارلیمنٹ سُپر ہے تو پارلیمنٹیرینز پر عدالتی فیصلوں کا اطلاق کیوں ہو گا؟
سلمان صدیق چیئرمین ایف بی آر ایک تقریب میں تلملانے سے زیادہ بلبلا اٹھے ’’حکومت اخراجات پورے نہیں کر رہی، معیشت کی حالت نازک ہے، حالات ٹھیک نہ کئے گئے تو تباہی آئے گی، پاکستانی معیشت بند گلی میں ہے حکومت غیر اعلانیہ ایمرجنسی سے جنگ لڑ رہی ہے‘‘۔ سلمان صدیق نے معیشت کی بربادی کا واویلا کراچی میں کیا تو وزیراعظم گیلانی نے اسی روز لاہور میں ایک تقریر کے دوران فرمایا ’’معیشت مستحکم ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنائیں گے۔ تین سال میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں‘‘۔ کونسی کامیابیاں حاصل کیں اور عدلیہ کی آزادی کو کب یقینی بنائیں گے؟ سلمان صدیق نے ملکی معیشت کی بدحالی اور زبوں حالی کی بات کی۔ وزیراعظم کس کی معیشت کے استحکام کا نعرہ مستانہ بلند فرما رہے؟ اپنی، اپنے باس، وزیروں مشیروں اور عہدوں کے خریداروں کی؟ شہباز شریف سے بارہا دوسرے صوبوں کے برابر پنجاب کو بھی گیس کی فراہمی کے وعدے اور اعلانات کئے‘ ان پر عمل کبھی ہوا؟ ایسی باتیں کریں گے تو عام آدمی کو ان کے اوپر کے خانے کے خالی ہونے کا شبہ ہو سکتا ہے۔ خانہ خالی ہو تو فارسی محاورے کے مطابق خانہ خالی را دیومی گیرد (خالی گھر کو جن بھوت اپنا بسیرا بنا لیتے ہیں)۔
آج واقعی گیلانی صاحب کا تقریر کرتے ہوئے جوبن اور بانکپن قابل دید ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ شنید بھی ہے۔ ان کی زبان گل بہار ہو سکتی ہے تو شعلہ بار بھی۔ دوست نے خطابت کے لئے نسخہ کیمیا تو ان کے حوالے کر دیا۔ تقریر میں کہنا کیا ہے۔ اس کی گیلانی صاحب نے پوچھنے کی زحمت کی نہ کسی سیانے نے بتانے کی۔ وہ اب تک اس مخمصے سے نہیں نکل سکے کہ کب گُل کھلانے ہیں کہاں انگارے برسانے ہیں۔ تعزیتی، ماتمی شکل کہاں بنانی ہے اور چہرے پر تازگی و شادمانی کب لانی ہے۔ شاید خود کو بڑا سیاستدان ثابت کرنے کے لئے کہہ دیا تھا جسٹس افتخار کو ججوں کا امام سمجھتا ہوں۔ اس وقت جج بحال نہیں ہوئے تھے۔ اگلے دن شاید کسی نے گھور کر اس سے بڑا سیاستدان بننے کا کلیہ بتا دیا تو گویا ہوئے ’’میں نے ان کو ججوں کا امام نہیں کہا‘‘۔ جھانسی کی رانی کا نام سنا تھا۔ جھانسوں راجہ بھی دیکھ لیا۔ جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی ڈیڈ لائن پہ ڈیڈ لائن دیتا تھا۔ گیلانی صاحب نے بلایا، ڈانٹا اور سمجھایا ’’احمق سیاست میں کبھی ڈیڈ لائن نہیں دیتے‘‘ ڈیڈ لائن لینے کے بارے کچھ نہیں بتایا تھا۔ نوازشریف نے ہاں یا ناں کے لئے تین جمع تین دن کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ گیلانی صاحب نے چوتھے دن ہاں کر دی۔ تاہم 45 دن کا جھانسہ دیا ہوا ہے۔ سو بار کہا عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں ان پر عمل کریں گے۔ شاید فیصلے منگوا کر ان کو چوم کر محترمہ کی تصویر کے فریم کے برابر لٹکا دیتے ہوں۔ اس سے زیادہ احترام کیا ہو سکتا ہے جب اتنا احترام ہے تو عمل کی کیا ضرورت۔ ویسے بھی ان کی نظر میں پارلیمنٹ سُپر ہے۔ جب پارلیمنٹ سُپر ہے تو پارلیمنٹیرینز پر عدالتی فیصلوں کا اطلاق کیوں ہو گا؟
سلمان صدیق چیئرمین ایف بی آر ایک تقریب میں تلملانے سے زیادہ بلبلا اٹھے ’’حکومت اخراجات پورے نہیں کر رہی، معیشت کی حالت نازک ہے، حالات ٹھیک نہ کئے گئے تو تباہی آئے گی، پاکستانی معیشت بند گلی میں ہے حکومت غیر اعلانیہ ایمرجنسی سے جنگ لڑ رہی ہے‘‘۔ سلمان صدیق نے معیشت کی بربادی کا واویلا کراچی میں کیا تو وزیراعظم گیلانی نے اسی روز لاہور میں ایک تقریر کے دوران فرمایا ’’معیشت مستحکم ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنائیں گے۔ تین سال میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں‘‘۔ کونسی کامیابیاں حاصل کیں اور عدلیہ کی آزادی کو کب یقینی بنائیں گے؟ سلمان صدیق نے ملکی معیشت کی بدحالی اور زبوں حالی کی بات کی۔ وزیراعظم کس کی معیشت کے استحکام کا نعرہ مستانہ بلند فرما رہے؟ اپنی، اپنے باس، وزیروں مشیروں اور عہدوں کے خریداروں کی؟ شہباز شریف سے بارہا دوسرے صوبوں کے برابر پنجاب کو بھی گیس کی فراہمی کے وعدے اور اعلانات کئے‘ ان پر عمل کبھی ہوا؟ ایسی باتیں کریں گے تو عام آدمی کو ان کے اوپر کے خانے کے خالی ہونے کا شبہ ہو سکتا ہے۔ خانہ خالی ہو تو فارسی محاورے کے مطابق خانہ خالی را دیومی گیرد (خالی گھر کو جن بھوت اپنا بسیرا بنا لیتے ہیں)۔
No comments:
Post a Comment