25-1-11
فضل حسین اعوان
وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے جادو کی چھڑی لہرا دی۔ اب دیکھتے ہی دیکھتے ملک ترقی اور عوام خوشحالی کی منزلیں طے کرتے ستاروں پہ کمند ڈالتے نظر آئیں گے۔ ترقیاتی بجٹ میں 100 ارب روپے کٹوتی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کی ہے۔ اب دیکھئے 100 ارب روپیہ کہاں جاتا، کس کو خوشحال بناتا کن کو ستاتا رلاتا ہے اور 100 ارب کی کمی اس رقم سے کی گئی ہے جو عوامی بہبود اور ترقیاتی کاموں کے لئے تھی۔ اس سے حکومت نہیں جن کاموں اور جن لوگوں کی فلاح کیلئے تھی وہ متاثر ہونگے۔ آر جی ایس ٹی کی اپوزیشن تو درکنار خود حکومتی حلقوں اور اتحادیوں نے بھی مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے اس کے ہر صورت نفاذ کا عزم ظاہر کیا ہے۔ آپ عوامی مسائل اور مشکلات سے نابلد آدمی کو پکڑ کر عوام کی گردن پر سوار کر دیں گے تو وہ ایسے ہی جذبے عزائم کی تکمیل کرنے کی اپنی سی کوشش کریگا۔ جیسے موجودہ وزیر خزانہ کر رہے ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ کو سینیٹر بنوا کر وزیر خزانہ لگا دیا گیا۔ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر آتے تو شاید عام آدمی کی مشکلات کا کچھ احساس ہوتا۔ ترقیاتی کاموں میں نقب لگا کر 100 ارب کی بچت، 3 ارب کی لاگت سے پارلیمنٹ لاجز کی تعمیر کے لئے امریکی طرز کا منصوبہ جاری۔ عجب شوقین مزاج وزیراعظم ہیں کابینہ کا اجلاس کبھی سمندر میں بحری جہاز پر، کبھی گورنر ہاﺅس لاہور میں۔ صدر اور وزیراعظم کے دورے پر دورے۔ آٹھ ماہ قبل بھی خراب معاشی صورت حال کو سہارا دینے کے لئے پارلیمنٹیرنز کے غیر ملکی دوروں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ وہ اب چپکے سے اٹھا لی گئی ہے۔ کیا دہرا معیار دوغلا پن اور فریب۔ ایک طرف اخراجات میں کٹوتی دوسری طرف پارلیمنٹیرنز پر قومی خزانے سے نوازشات، وزیر خزانہ نے کراچی میں صنعت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے یہ الزام بھی لگا دیا کہ بااثر افراد نے سیاستدانوں سے مل کر جی ایس ٹی کے خلاف مہم کی فنانسنگ کی۔ عام آدمی تو سمجھتا تھا کہ ان کے نمائندے ملک و قوم کی بے لوث خدمت کے جذبے کے تحت آر جی ایس ٹی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ انہوں نے یہ کام بھی بااثر افراد کی فنانسنگ سے کیا۔ اگر یہ اب جی ایس ٹی پر ہاں کرتے ہیں تو سمجھا جائیگا کہ حکومت نے بااثر افراد سے بھی زیادہ فنانسنگ کر دی ہے۔ وزیر خزانہ نے غلط کہا ہے تو عوامی نمائندے اس الزام کو ہضم نہ کریں۔ حفیظ شیخ نے یہ فرما کر عوام، نوازشریف اور الطاف کو مخمصے اور امتحان میں ڈال دیا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے مگر یہ مجبوری ہے۔ لوگ تو تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کی توقع رکھتے تھے وزیر خزانہ نے اس پر پانی پھیر دیا۔ ساتھ ہی منافع خور پٹرول پمپ مالکان کل سے تیل کی قلت پیدا کرنا شروع کر دیں گے۔ پھر پٹرول پمپوں پر لائنیں، شور شرابا اور آپا دھاپی کے مناظر نظر آئیں گے۔ وزیر خزانہ کا یہ فرمان تو سنہری حروف میں قلمبند کرنے کے قابل ہے کہ 2005 سے مہنگائی میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہم نے 12 سے 13 فیصد کمی کر دی۔ بتائیے کس چیز کی قیمت میں 10 بارہ فیصد کمی ہوئی۔ صرف تیل کی قیمت میں اس ماہ، وہ بھی اپوزیشن کی طرف سے حکمرانوں کی دم پر پاﺅں رکھنے کے باعث۔ ہو سکتا ہے کہ جس سٹور سے ہمارے حکمران خریداری کرتے ہیں وہاں ان کو مذکورہ رعایت دی جاتی ہو۔ اب اگلی بچت کے حوالے سے اقدامات کا سن لیجئے۔ کائرہ کہتے ہیں وفاقی کابینہ میں ”رائٹ سائزنگ“ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کابینہ جس ”رانگ سائزنگ“ کی ہے اس کے مطابق رائٹ سائزنگ ہو تو کچھ فائدہ بھی ہے۔ اگر صوبوں کو منتقل ہونے والے محکموں کے وزیروں کو اِدھر ا ±دھر کر کے رائٹ سائزنگ کا واویلا کرنا ہے تو اس کا فائدہ؟ 96 رکنی کابینہ رانگ سائزنگ ہے، زیادہ سے زیادہ 25 رائٹ سائزنگ کہا جا سکتا ہے۔ زرداری صاحب لیں الہ کا نام۔ رائٹ سائزنگ فرما دیں۔ کم از کم یہ ایک تو قوم پر احسان ہو گا۔ رائٹ سائزنگ کی بات وزیر اطلاعات کائرہ نے کی تھی۔ اگلے دن گیلانی صاحب نے بہت سے لوگوں کی خوش فہمی اور خوش گمانی یہ کہہ کر کافور کر دی کہ وفاقی کابینہ میں ردوبدل ہو گا، ڈاﺅن سائزنگ کا ابھی مرحلہ نہیں آیا… خدا جانے وہ مرحلہ کب آئے گا۔ آئے گا بھی یا نہیں؟ وزیراعظم اور ان کے وزرائ گھر سے نکلتے وقت یہ تو طے کر لیا کریں کہ باہر جا کر کیا کہنا ہے۔ کم از کم کابینہ کے ارکان کے بارے میں تو لوگ یہ نہ کہیں کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔
فضل حسین اعوان
وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے جادو کی چھڑی لہرا دی۔ اب دیکھتے ہی دیکھتے ملک ترقی اور عوام خوشحالی کی منزلیں طے کرتے ستاروں پہ کمند ڈالتے نظر آئیں گے۔ ترقیاتی بجٹ میں 100 ارب روپے کٹوتی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کی ہے۔ اب دیکھئے 100 ارب روپیہ کہاں جاتا، کس کو خوشحال بناتا کن کو ستاتا رلاتا ہے اور 100 ارب کی کمی اس رقم سے کی گئی ہے جو عوامی بہبود اور ترقیاتی کاموں کے لئے تھی۔ اس سے حکومت نہیں جن کاموں اور جن لوگوں کی فلاح کیلئے تھی وہ متاثر ہونگے۔ آر جی ایس ٹی کی اپوزیشن تو درکنار خود حکومتی حلقوں اور اتحادیوں نے بھی مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے اس کے ہر صورت نفاذ کا عزم ظاہر کیا ہے۔ آپ عوامی مسائل اور مشکلات سے نابلد آدمی کو پکڑ کر عوام کی گردن پر سوار کر دیں گے تو وہ ایسے ہی جذبے عزائم کی تکمیل کرنے کی اپنی سی کوشش کریگا۔ جیسے موجودہ وزیر خزانہ کر رہے ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ کو سینیٹر بنوا کر وزیر خزانہ لگا دیا گیا۔ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر آتے تو شاید عام آدمی کی مشکلات کا کچھ احساس ہوتا۔ ترقیاتی کاموں میں نقب لگا کر 100 ارب کی بچت، 3 ارب کی لاگت سے پارلیمنٹ لاجز کی تعمیر کے لئے امریکی طرز کا منصوبہ جاری۔ عجب شوقین مزاج وزیراعظم ہیں کابینہ کا اجلاس کبھی سمندر میں بحری جہاز پر، کبھی گورنر ہاﺅس لاہور میں۔ صدر اور وزیراعظم کے دورے پر دورے۔ آٹھ ماہ قبل بھی خراب معاشی صورت حال کو سہارا دینے کے لئے پارلیمنٹیرنز کے غیر ملکی دوروں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ وہ اب چپکے سے اٹھا لی گئی ہے۔ کیا دہرا معیار دوغلا پن اور فریب۔ ایک طرف اخراجات میں کٹوتی دوسری طرف پارلیمنٹیرنز پر قومی خزانے سے نوازشات، وزیر خزانہ نے کراچی میں صنعت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے یہ الزام بھی لگا دیا کہ بااثر افراد نے سیاستدانوں سے مل کر جی ایس ٹی کے خلاف مہم کی فنانسنگ کی۔ عام آدمی تو سمجھتا تھا کہ ان کے نمائندے ملک و قوم کی بے لوث خدمت کے جذبے کے تحت آر جی ایس ٹی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ انہوں نے یہ کام بھی بااثر افراد کی فنانسنگ سے کیا۔ اگر یہ اب جی ایس ٹی پر ہاں کرتے ہیں تو سمجھا جائیگا کہ حکومت نے بااثر افراد سے بھی زیادہ فنانسنگ کر دی ہے۔ وزیر خزانہ نے غلط کہا ہے تو عوامی نمائندے اس الزام کو ہضم نہ کریں۔ حفیظ شیخ نے یہ فرما کر عوام، نوازشریف اور الطاف کو مخمصے اور امتحان میں ڈال دیا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے مگر یہ مجبوری ہے۔ لوگ تو تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کی توقع رکھتے تھے وزیر خزانہ نے اس پر پانی پھیر دیا۔ ساتھ ہی منافع خور پٹرول پمپ مالکان کل سے تیل کی قلت پیدا کرنا شروع کر دیں گے۔ پھر پٹرول پمپوں پر لائنیں، شور شرابا اور آپا دھاپی کے مناظر نظر آئیں گے۔ وزیر خزانہ کا یہ فرمان تو سنہری حروف میں قلمبند کرنے کے قابل ہے کہ 2005 سے مہنگائی میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہم نے 12 سے 13 فیصد کمی کر دی۔ بتائیے کس چیز کی قیمت میں 10 بارہ فیصد کمی ہوئی۔ صرف تیل کی قیمت میں اس ماہ، وہ بھی اپوزیشن کی طرف سے حکمرانوں کی دم پر پاﺅں رکھنے کے باعث۔ ہو سکتا ہے کہ جس سٹور سے ہمارے حکمران خریداری کرتے ہیں وہاں ان کو مذکورہ رعایت دی جاتی ہو۔ اب اگلی بچت کے حوالے سے اقدامات کا سن لیجئے۔ کائرہ کہتے ہیں وفاقی کابینہ میں ”رائٹ سائزنگ“ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کابینہ جس ”رانگ سائزنگ“ کی ہے اس کے مطابق رائٹ سائزنگ ہو تو کچھ فائدہ بھی ہے۔ اگر صوبوں کو منتقل ہونے والے محکموں کے وزیروں کو اِدھر ا ±دھر کر کے رائٹ سائزنگ کا واویلا کرنا ہے تو اس کا فائدہ؟ 96 رکنی کابینہ رانگ سائزنگ ہے، زیادہ سے زیادہ 25 رائٹ سائزنگ کہا جا سکتا ہے۔ زرداری صاحب لیں الہ کا نام۔ رائٹ سائزنگ فرما دیں۔ کم از کم یہ ایک تو قوم پر احسان ہو گا۔ رائٹ سائزنگ کی بات وزیر اطلاعات کائرہ نے کی تھی۔ اگلے دن گیلانی صاحب نے بہت سے لوگوں کی خوش فہمی اور خوش گمانی یہ کہہ کر کافور کر دی کہ وفاقی کابینہ میں ردوبدل ہو گا، ڈاﺅن سائزنگ کا ابھی مرحلہ نہیں آیا… خدا جانے وہ مرحلہ کب آئے گا۔ آئے گا بھی یا نہیں؟ وزیراعظم اور ان کے وزرائ گھر سے نکلتے وقت یہ تو طے کر لیا کریں کہ باہر جا کر کیا کہنا ہے۔ کم از کم کابینہ کے ارکان کے بارے میں تو لوگ یہ نہ کہیں کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔
No comments:
Post a Comment