19-1-11
فضل حسین اعوان
شہر پھیلتے جا رہے ہیں۔ بغیر کسی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے، کھیت کھلیان ہائوسنگ سکیموں میں ڈھل رہے ہیں۔ چند ایکڑ سے لیکر ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہائوسنگ سکیمیں موجود ہیں۔ اس شعبہ میں جہاں ایماندار اور دیانتدار لوگ ہیں وہیں فراڈیوں اور جعلسازوں کی بھی کمی نہیں۔ ہائوسنگ سکیمیں بنتی ہیں۔ پرکشش اشتہار بازی شروع ہوتی ہے۔ اکثر لوگ زندگی بھر کی جمع پونجی پلاٹ کی خریداری پر لگا دیتے ہیں۔ تعمیر شروع ہوتی ہے تو دو تین مزید اسی پلاٹ کے مالک نمودار ہوجاتے ہیں۔ کوئی تھانے جاتا ہے، کوئی کچہری اور کوئی سٹے لے آتا ہے۔ تعمیر کیلئے اکٹھی کی گئی رقم مقدمہ بازی کی نذر اور خریدار ٹینشن، پریشانی اور رنج و غم سے کئی بیماریوں کی زد میں آجاتا ہے۔ اس دوران پلاٹ بیچنے والے رفوچکر ہوچکے ہوتے ہیں۔ چھوٹی سکیموں کے مکین فراڈ سے بچ جاتے ہیں تو زندگی بھر کی رسوائی خرید لیتے ہیں۔ ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیاں۔ سکول، مدرسہ نہ مسجد، سیوریج، گیس، بجلی نہ پانی، سب اپنی مدد آپ کے تحت کرنے کی ذمہ داری، سڑک کی تعمیر کیلئے الیکشن کا انتظار۔
بڑے بڑے پلازے بنتے ہیں۔ سینکڑوں ہالوں، دفاتر اور دکانوں پر مشتمل ایک ایک کی قیمت کروڑوں میں۔ قانون کے مطابق اس میں پارکنگ آگ بجھانے کے آلات اور ایمرجنسی راستوں کا ہونا لازمی ہے۔ اکثر پلازوں میں یہ سہولتیں سرے سے مفقود، پلازہ بنانے والے اور متعلقہ ادارے قانون جانتے اور ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ تعمیر سے تکمیل اور پھر فروخت تک یہ ادارے خاموش رہتے ہیں۔ دفاتر سجنے اور کاروبار چلنے کے بعد اہلکاروں کے کالے تیل میں ڈبکیاں لگاتے ضمیر ابل پڑتے ہیں۔ بہی کھاتے لیکر آدھمکتے ہیں۔ اگلی داستانِ الم دہرانے کی ضرورت نہیں۔ پھر ان میں سے ایک منحوس شکل کا ہر ماہ آنا اور جیبیں بھر کے جانا لگا رہتا ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ اداروں میں بیدردی سے لوٹ مار کے بعد بھی اگر معیشت میں کچھ دم خم ہے تو یہ زراعت کی بدولت ہے۔ شہروں کے قرب و جوار میں سونا اگلتی ہزاروں ایکڑ زمینوں پر آج فصلوں کے بجائے ہائوسنگ سکیمیں اُگ چکی ہیں۔ کہیں ضرورت کے مطابق اور کہیں بلاضرورت۔ لوگوں کا شہروں میں آبسنے کا رجحان ضرور ہے لیکن قصبات اور دیہات سکڑ نہیں رہے، ان کا حجم اور ہئیت بھی تغیر پذیر ہے۔ شہروں کی دیکھا دیکھی قصبوں اور دیہات میں بھی ہائوسنگ سکیموں اور کالونیوں کی وبا جڑ پکڑ رہی ہے۔ کچھ دولت مندوں کو دیہی لائف سٹائل میں کشش نظر آتی ہے تو وہ کسی گائوں میں بسیرا کرنے کے بجائے ہزاروں سینکڑوں ایکڑ زمین خرید کر اپنا الگ سے گائوں کھڑا کرلیتے ہیں۔
کیا ہم ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی زراعت کا حال بھی صنعتوں، کارخانوں اور فیکٹریوں جیسا کرنا چاہتے ہیں؟ جو بجلی اور گیس کی قلت کے باعث اپنا وجود کھو رہی ہیں۔ لاکھوں مزدوروں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں۔بڑھتی آبادی کے ساتھ اسکے روزگار اور رہائش کا انتظام ہونا چاہئے۔ یہ سرکار کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ ہائوسنگ سکیمیں کسی قانون اور تمیز کے دائرے میں رہ کر بننی چاہئیں جہاں زندگی کی مطلوبہ سہولتیں فراہم کرنا بلڈرز کی ذمہ داری میں شامل ہو۔ اس پر صرف حکومت ہی عملدرآمد کراسکتی ہے۔ ایسی ہائوسنگ سوسائٹیز بھی موجود ہیں جہاں 20 سال بعد بھی ٹکے کا کام نہیں ہوا۔ کچھ میں جوں کی رفتار سے کام ہورہے ہیں، یہ بحق سرکار ضبط ہوجانی چاہئیں۔ حکومت کوشش کرے کہ زرعی زمین پر ہائوسنگ سکیمیں کالونیاں اور سوسائٹیز تعمیر نہ ہوں، اگر ایسا ناگزیر ہو تو انکے اندر ایک مخصوص حصہ سبزیوں کی کاشت کیلئے مختص کیا جائے جو نہ صرف مناسب قیمت پر سوسائٹی کے مکینوں بلکہ زائد شہرکے لوگوں کیلئے دستیاب ہو۔ زراعت پر بڑھتے بوجھ میں کمی کے طریقوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔
بڑے بڑے پلازے بنتے ہیں۔ سینکڑوں ہالوں، دفاتر اور دکانوں پر مشتمل ایک ایک کی قیمت کروڑوں میں۔ قانون کے مطابق اس میں پارکنگ آگ بجھانے کے آلات اور ایمرجنسی راستوں کا ہونا لازمی ہے۔ اکثر پلازوں میں یہ سہولتیں سرے سے مفقود، پلازہ بنانے والے اور متعلقہ ادارے قانون جانتے اور ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ تعمیر سے تکمیل اور پھر فروخت تک یہ ادارے خاموش رہتے ہیں۔ دفاتر سجنے اور کاروبار چلنے کے بعد اہلکاروں کے کالے تیل میں ڈبکیاں لگاتے ضمیر ابل پڑتے ہیں۔ بہی کھاتے لیکر آدھمکتے ہیں۔ اگلی داستانِ الم دہرانے کی ضرورت نہیں۔ پھر ان میں سے ایک منحوس شکل کا ہر ماہ آنا اور جیبیں بھر کے جانا لگا رہتا ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ اداروں میں بیدردی سے لوٹ مار کے بعد بھی اگر معیشت میں کچھ دم خم ہے تو یہ زراعت کی بدولت ہے۔ شہروں کے قرب و جوار میں سونا اگلتی ہزاروں ایکڑ زمینوں پر آج فصلوں کے بجائے ہائوسنگ سکیمیں اُگ چکی ہیں۔ کہیں ضرورت کے مطابق اور کہیں بلاضرورت۔ لوگوں کا شہروں میں آبسنے کا رجحان ضرور ہے لیکن قصبات اور دیہات سکڑ نہیں رہے، ان کا حجم اور ہئیت بھی تغیر پذیر ہے۔ شہروں کی دیکھا دیکھی قصبوں اور دیہات میں بھی ہائوسنگ سکیموں اور کالونیوں کی وبا جڑ پکڑ رہی ہے۔ کچھ دولت مندوں کو دیہی لائف سٹائل میں کشش نظر آتی ہے تو وہ کسی گائوں میں بسیرا کرنے کے بجائے ہزاروں سینکڑوں ایکڑ زمین خرید کر اپنا الگ سے گائوں کھڑا کرلیتے ہیں۔
کیا ہم ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی زراعت کا حال بھی صنعتوں، کارخانوں اور فیکٹریوں جیسا کرنا چاہتے ہیں؟ جو بجلی اور گیس کی قلت کے باعث اپنا وجود کھو رہی ہیں۔ لاکھوں مزدوروں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں۔بڑھتی آبادی کے ساتھ اسکے روزگار اور رہائش کا انتظام ہونا چاہئے۔ یہ سرکار کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ ہائوسنگ سکیمیں کسی قانون اور تمیز کے دائرے میں رہ کر بننی چاہئیں جہاں زندگی کی مطلوبہ سہولتیں فراہم کرنا بلڈرز کی ذمہ داری میں شامل ہو۔ اس پر صرف حکومت ہی عملدرآمد کراسکتی ہے۔ ایسی ہائوسنگ سوسائٹیز بھی موجود ہیں جہاں 20 سال بعد بھی ٹکے کا کام نہیں ہوا۔ کچھ میں جوں کی رفتار سے کام ہورہے ہیں، یہ بحق سرکار ضبط ہوجانی چاہئیں۔ حکومت کوشش کرے کہ زرعی زمین پر ہائوسنگ سکیمیں کالونیاں اور سوسائٹیز تعمیر نہ ہوں، اگر ایسا ناگزیر ہو تو انکے اندر ایک مخصوص حصہ سبزیوں کی کاشت کیلئے مختص کیا جائے جو نہ صرف مناسب قیمت پر سوسائٹی کے مکینوں بلکہ زائد شہرکے لوگوں کیلئے دستیاب ہو۔ زراعت پر بڑھتے بوجھ میں کمی کے طریقوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔
No comments:
Post a Comment