5-1-11فضل حسین اعوان
وصیت کے طلسم کدے کی جادوگری سے اقتدار کو مٹھی میں کر لینے والے پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا آج اپنے بانی کی 82ویں سالگرہ پژمردگی، افسردگی، مجبوری اور کسی حد تک مفروری کی سی کیفیت میں منا رہے ہیں۔ بینظیر بھٹو کے یومِ ولادت کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے پیدائش کے دن پر کسی جوش و خروش کی تیاری نظر آ رہی ہے نہ بھٹو کے مشن کے تکمیل کے لئے عہد و پیمانِ جاں نثاری۔ یوں لگتا ہے کہ بھٹو کے ساتھ ہی ان کا مشن بھی دفن ہو گیا تھا۔ بیٹی نے باپ کے مشن کو سمجھا، اسے اپنانے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کی جدوجہد کی۔ ایک تو ان کو یکسوئی سے حکومت کرنے کا موقع نہ ملا دوسرے دو بار اقتدار میں آنے کے باوجود ایک ٹرم کے لئے بھی جتنی حکومت نہ کرنے دی گئی۔ آج بھٹو اور بینظیر کے جاں نشیں محترمہ کے خون کے صدقے حکومت میں موجود ہیں۔ ان کے مشن سے ہر کوئی واقف ہے۔ تاہم یہ غریبوں کو روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی کو بھٹوز کا مشن قرار دیکر، اس مشن کی تکمیل کے لئے خود کو اس جہاد پر کاربند ظاہر اور ثابت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کا مشن روٹی کپڑا اور مکان تھا؟
ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے لیڈر تھے۔ ان کی پاکستان اور اسلام کے لئے خدمات کی ایک لمبی تفصیل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو سر کرنے کا 1964ء اور 1965ء میں آپریشن جبرالٹر انہیں کا منصوبہ تھا۔ وہ کشمیر کو جنگ کے ذریعے فتح کرنا چاہتے تھے۔ کشمیر پر ہزار سال تک جنگ کا نعرہ بھی بھٹو نے دیا۔ گھاس کھا لیں گے ایٹم بم بنائیں گے یہ اعلان بھی بھٹو کا تھا۔ اندرا گاندھی کو مذاکرات کی میز پر رام کر کے 90 ہزار قیدی ایسی صورت حال میں واپس لائے جب مجیب اندرا قیدی جرنیلوں پر جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلانے کی پلاننگ کر چکے تھے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا معیشت کی ابتری کو بہتری میں بدل ڈالنا بے شمار بیروزگاروں کے لئے دوسرے ممالک میں ملازمت کے مواقع فراہم کرنا، مزدوروں کسانوں میں حقوق کا شعور اجاگر کرنا، شراب پر پابندی، بھٹو کے کارہائے نمایاں میں سے چند ایک ہیں۔ قوم کو اس لیڈر کے کارناموں پر فخر ہے جس نے قیام پاکستان کے وقت کی طرح لٹے پٹے اجڑے اور بکھرے پاکستان کی شیرازہ بندی کی۔ تاہم پاکستان کے دولخت ہونے میں بھٹو کا کردار ہمیشہ زیرِ بحث رہے گا۔ خود بھٹو صاحب کے دل کے نہاں خانے میں بھی مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کا احساسِ جرم موجود تھا۔ بھٹو وزارت خارجہ کے حکام سے بڑے جوش و ولولے سے کہا کرتے تھے کہ وہ سانحہ مشرقی پاکستان کا بدلہ مقبوضہ کشمیر کی فتح کی صورت میں لے سکتے ہیں۔یہ بھٹو صاحب کا خیالی پلائو نہیں تھا۔ اقتدار میں آئے تو مقبوضہ کشمیر میں جہادی سرگرمیاں تیز کرادیں۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے ڈاکٹر قدیر خان کو ہالینڈ سے بلوا کر ایٹم بم بنانے کیلئے تمام ممکنہ وسائل ان کے حوالے کردئیے۔ وہ اپنی زندگی میں ہی ایٹمی پروگرام کی تکمیل چاہتے تھے۔ کس لیے؟ سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے احساسِ جرم سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے۔کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا کر۔بد قسمتی سے ان کے دور اقتدار میں ایٹم بم نہ بن سکا۔پھر ایک طالع آزما اور مہم جو نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ان کی موت کے بعد ایٹم بم تو بن گیا جس مقصد کیلئے بھٹو بنواناچاہتے ہیں وہ مقصد بعد میں آنیوالوں کی بزدلی مصلحت اور منافقت کی بھینٹ چڑھ گیا۔مسئلہ کشمیر لٹکتا چلا گیا۔کسی نے دوستی کے نام پر اسے لٹکایا کسی نے خود کو عقل کل سمجھ کر مسئلہ کے بیہودہ حلوں کی بھر مار کرکے کھٹائی میں ڈالا۔ بھٹو کا اصل مشن مشرقی پاکستان کا کشمیر کے ذریعے بدلہ لینا تھا۔ آج اقتدار بھٹو کے جان نشین ہونے کے دعویداروں کے پاس ہے لیکن ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں توجہات بدل چکی ہیں۔یہ اقتدار میں آنے کیلئے بھٹو کا نام لیتے ہیں۔ان کے نام پر اقتدار کا جام تھام لیتے ہیں، بھٹو کو پھانسی میں عوام کا کیا دوش لیکن ان کی پالیسیوں سے لگتا ہے بھٹو کی موت کا جیسے عام آدمی سے انتقام لیتے ہیں۔ زرداری صاحب بھٹو کے صحیح جان نشین بنیں۔ جائزہ لیں ان کا مشن کیا تھا۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد -اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کریں۔ ان کا مشن مقبوضہ کشمیر کی آزادی تھا۔ جس کیلئے انہوں نے ایٹمی پروگرام کی ابتدا کی۔اب مکمل ایٹم بم آپ کے پاس ہے کشمیر کی آزادی کیلئے بم اٹھا کر باہر نکلیں شاید چلانے کی نوبت نہ آئے اور بزدل دشمن ڈر کے مارے آپ کا حق آپ کو دینے پر آمادہ ہو جائے۔
No comments:
Post a Comment