About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, January 4, 2011

جشن سال نو ۔۔ مغرب کی نقالی

4-1-11
فضل حسین اعوان 
’’نیا سال مبارک‘‘ کے پیغامات کا عید مبارک کی طرح تانتا بندھا رہا۔ اب چونکہ خط کا تردّد نہ فون کی زحمت‘ ایک بٹن دبایا سینکڑوں دوستوں‘ واقف کاروں اور اجنبیوں کو ڈیڑھ روپیہ خرچ کرکے میسج بھیج دیا۔ پھر اکثر کی یہ خواہش بھی کہ نہلے پہ دہلے کی مانند جواب آں غزل ضرور آئے گا۔ جوابِ باصواب تو درکنارکئی سرے سے میسج پڑھتے بھی نہیں جو پڑھتے ہیں ان میں سے بھی اکثر جواب جاہلاں باشد خموشی کا رویہ اپنا لیتے ہیں۔ نئے سال کا جشن تمام مسیحی اور اکثر اسلامی ممالک میں بھی منایا گیا۔ طاؤس و رباب‘ شہنائیاں اور جلترنگ بجتے رہے۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا سرشام 2010ء کے سورج کے غروب اور رات بارہ بجے 2011کے آغاز پر پوری دنیا میں سجی شادمانی کی محفلیں دکھاتا رہا نیوزی لینڈ سے لے کر امریکہ تک جیسے جیسے شام ڈھلتی گئی شہر شہر قریہ قریہ نوجوانوں کے انگ انگ سے خوشی‘ رعنائی اور زیبائی کے فوارے پھوٹتے رہے۔ رات بارہ بجے سے آفتاب کی پہلی سنہری کرن کے فضاؤں کو منورکرتے ہوئے زمین سے ٹکرانے تک نیوزی لینڈ سے امریکہ تک بڑے شہر رنگ و نور اور روشنیوں سے نہائے رہے۔ آتشبازی کے دلکش مناظر دکھائے جاتے رہے۔ ڈانس کی مخلوط محفلیں سجائی گئی تھیں۔ نئے سال کا جشن منانے میں دبئی کسی بھی مسیحی ملک سے پیچھے نہیں تھا۔ پاکستان میں سخت سردی میں بھی بڑے لوگوں کی بگڑی اور چھوٹے لوگوں کی خود کو بڑا ثابت کرنے کی خواہش رکھنے والی اولادوں نے نیو ایئر نائٹ کے نام پر بودے اور بھدے پن کا مظاہرہ کیا۔ سرشام برپا ہونے والا طوفان بدتمیزی صبح تک جاری رہا۔ اول تو سال نو سے ہمارا بحیثیت مسلمان تعلق ہی نہیں۔ اگر خوشی کا اظہار فرض عین ہو گیا ہے تو اس کے اظہار کیلئے کوئی تمیز اور تہذیب ہونی چاہئے۔ لچرپن‘ ہیجان‘ ہذیان‘ بے ہودگی‘ آورگی‘ آوازے کسنا کسی کی نہ سننا یہ ہمارے کلچر کا حصہ کب سے؟
ہمارے اسلامی تہوار کسی بھی مذہب سے کم تر نہیں۔ کیا کبھی آپ نے دیکھا کسی ہندو‘ عیسائی اور یہودی نے عیدوں پر مسلمانوں کی طرح خوشی منائی ہو؟ پھر ہم اس بیماری میں کیوں مبتلا ہیں؟ نئے سال پر بے ہنگم رقص اور اچھل کود کرتے ہمارے نوجوان بے ہوش‘ بسنت پر جوش‘ ویلنٹائن ڈے پر مدہوش‘ جدت کے شوق اور مغرب کی نقالی میں مقتدر حلقوں تک ملامت بردوش ہیں۔ یہ مہنگائی کا بم چلاتے ہوئے اپنی فوقیت جتلاتے ہیں۔ 19ویں ترمیم پر دستخط کرنے کیلئے سال نو کے آغاز کو منتخب کیا اور پٹرول بم بھی یکم جنوری کو ہی چلایا۔
اس بے ترتیبی میں قصور کس کا ہے؟ نئی نسل کا یا ان کی تربیت کا؟ یقیناً تربیت میں ہی کمی رہ گئی کہ نئی نسل آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن گئی۔ ہنس کی چال چلنے کے زعم میں مبتلا اپنی چال بھی بھول گئے۔ ہمارے حکومتی امور معاملات سن ہجری سے وابستہ ہونے کے بجائے سن عیسوی سے پیوستہ ہیں جس کا یہ مطلب نہیں کہ مغربی تہذیب کو اپنانے کی کوشش میں اپنا روشن چہرہ سیاہ کر لیا جائے۔ جب تک ہماری حکومت موجودہ اورآنے والی سن عیسوی کو ترک کرکے جو واقعی 63 سال بعد مشکل بھی ہو گا۔ سن ہجری کو نہیں اپناتی یکم جنوری سال نو ہی رہے گا اور یہ شور ہنگامہ ہمہیں دیکھنا اور سننا پڑے گا۔ یہ مغرب کی نقالی ضرور ہے لیکن انگریزی راج کا عطیہ بھی ہے۔

1 comment:

  1. Dear Sir, I am very happy to see your articles written here. You are a verstile and multidimensional person and have keen eye in the subject. I do not know how have you grown up to this level of expertise in your subject but that is class. Have you got formal education for journalism or what? However, you are a great person. Thanks

    ReplyDelete