اتوار جنوری 02, 2011
جدید طب پر نظر ڈالیں تو اس شعبے میں مسلمان ہی مغرب کے امام دکھائی دیتے ہیں۔ تمام حکما اور اطباء کیلئے طب نبویؐ طب اور حکمت کی بنیاد اور مشعل راہ ہے۔ بات کو آگے بڑھانے سے قبل مختصراً بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض حسین اور جنرل اسلم لیگ کے دل کی دھڑکن غور سے سن لیجئے۔ جنرل اسلم بیگ 56 سال کی عمر میں عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے۔ کسی خدا کے بندے نے طب نبوی سے استفادہ کرنے کا مشورہ دیا۔ جنرل صاحب کی عمر اب 80 سے اوپر ہے نسخہ بدستور استعمال کر رہے ہیں اور عارضہ قلب سے پوری طرح محفوظ جنرل صاحب نے یہی نسخہ ملک ریاض حسین کو اس وقت بتایا جب وہ دل کے علاج کیلئے لندن کا ویزا لگوا چکے تھے۔ ملک صاحب نے نسخہ استعمال کیا ایک ماہ بعد لندن گئے توچیک اپ کے بعد ڈاکٹروں نے کہا ’’آپ کو دل کا کوئی مرض نہیں‘‘۔ ایک ماہ قبل کے ٹیسٹ دکھائے تو ماہرین حیران رہ گئے۔ ’’ٹیسٹوں کے مطابق ان دل تواناں تھا۔ دونوں حضرات نے اپنے دل کی بات‘‘ ایک معاصر کالم نگار کو بتائی شاید یہ نسخہ کسی کے کام آ جائے اس لئے جہاں درج کر دیا۔ نسخہ یہ ہے کہ اجوا کھجوروں کی گٹھلیاں پیس کر آدھا چمچ روزانہ کھائیں اور درد دل سے ہمیشہ کے لئے نجات پائیں۔ اجوا کھجور نسبتاً لمبی ہوتی ہے۔ گزشتہ رمضان میں اس کی قیمت پاکستان میں 2500 روپے کلو تھی اگر سعودی عرب سے منگوا لی جائے تو اصل اور نقل کی بحث سے بچا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں نے جدید طب کے میدان میں جابر بن جیان سے لے کر بو علی سینا تک عظیم کامیابیاں حاصل کیں جابر بن حیان 731 جبکہ بو علی سینا 980 میں پیدا ہوئے۔ درمیانے عرصہ میں عبدالمالک اصمعی‘ یعقوب کندی علی ابن الطبری‘ محمد بن ذکریا‘ ابو القامحرسیطی‘ ابو ہاشم خالد‘ ابو داؤد سلیمان بن حسان‘ علی ابن عیسیٰ اور ابو علی حسن بن حسین ابن الہیثم طب کے آسمان پر درخشاں ستارے بن کر جھلملاتے رہے۔ ان طبیبوں میں جانوروں کی بیماریوں کی تحقیق اور علاج دریافت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ ان کی دریافتیں اور ایجادات ذاتی مفادات کیلئے انسانی خدمت کے لئے تھیں۔ افسوس کہ آج اکثر ڈاکٹر مسیحائی کو زیبائی اور رعنائی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ مریض اور مرض کی حالت زار سے زیادہ نظر اس کی جیب پر ہوتی ہے۔ پانچوں انگلیاں برابر ہیں نہ ہر ڈاکٹر لالچی اور بے ضمیر‘ خوف خدا رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ملک میں بے شمار خیراتی شفاخانے اور غریبوں کے مفت علاج کے دواخانے کھلے ہیں تاہم کچھ فری علاج کی دکنوں پر بے حیائی بھی بڑی ڈھٹائی سے ہوتی ہے۔ میڈیکل کے شعبے کا انتخاب کرنے والے عموماً انسانی خدمت کا جذبہ لئے ہوتے ہیں۔ عملی میدان میں آکر بعض تعلیم پر آنے والے اخراجات ایک سال میں پورے کرنے پر تل جاتے ہیں۔ کچھ تو انسانوں پر جانوروں کی ادویات آزما ڈالتے ہیں۔ جعلی ادویات استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ فیسیںایسی کہ ادا کرتے ہوئے مریض کا دم نکلے۔ ملازمت کرتے ہیں اور اپنے کلینک بھی چلاتے ہیں۔ ڈاکٹر کے در پہ دستک دینے کی فیس مقرر جو ڈاکٹر اپنے نام اور جہاں کلینک ہے اس علاقے کے لحاظ سے مقرر کر دیتا ہے۔ بڑے نام کے ڈاکٹر مریض کی شکل پر نظر ڈالنے کا پانچ ہزار بھی وصول کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں۔ جو پچاس روپے میں مریض کو چیک کرتے ہیں اور دوا بھی دیتے ہیں۔ تمام بڑے ڈاکٹر اگر انسانیت کی خدمت کو زبانی کلامی دعوؤں کے بجائے عملی طور پر بھی اپنا لیں تو ملک اور معاشرہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ ہو سکتا ہے۔ ایک دوست دانت لگوانے گئے تو ڈنٹیسٹ نے 10 ہزار ریٹ بتایا۔ ایک دانت کا‘ دوسری تیسری جگہ گئے تو سات ہزار آخری قیمت بتائی گئی۔ یہ نوجوان ایم بی بی ایس کزن کو لے کر اس کے دوست دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ تو انہوں نے تین ورائٹی کے دانت سامنے رکھے جن کی بالترتیب قیمت 15 ہزار 10 ہزار اور 5 ہزار تھی۔ تاہم ان کیلئے رعایت یہ تھی کہ پندرہ ہزار والا 15 سو‘ دس ہزار والا ہزار‘ اور 5 ہزار والا 5 سو میں‘ ساتھ یہ بھی بتایا کہ مٹیریل ایک ہی ہے مریض کو مطمئن کرنے کیلئے ریٹ میں فرق رکھ کر بتایا جاتا ہے۔ ذرا شہر سے باہر نکلیں یاکسی محلے میں موجود ڈینٹل کے پاس چلے جائیں تو 100 روپے میں بھی دانت لگ جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment