About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, January 27, 2011

گورنر زکریا۔ بسنت اور حقیقت

26-1-11
فضل حسین اعوان ـ 
مسلمان نوجوان کے مقدمے نے حاکم وقت جو جج منصف اور قاضی بھی تھا، کو چکرا کر رکھ دیا۔ آغا کے نام سے موسوم نوجوان نے فریاد کی کہ اس نے فلاں عورت کو مسلمان کر کے اس سے نکاح کیا۔ اس کا ہندو خاوند اب اسے میرے ساتھ بھجوا نہیں رہا۔ عورت سے پوچھا گیا تو اس نے اس واقعہ کا سرے سے انکار کر دیا۔ خاوند اور دوسرے گھر والوں نے کہا جس دن نکاح کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اس دن خاتون گھر سے باہر نکلی ہی نہیں۔ بہت سے لوگوں نے گواہی دی کہ ایک خاتون ہمارے سامنے مسلمان ہوئی اور ایجاب و قبول بھی ہوا۔ آغا نے کہا کہ شادی کے روز جو ملبوسات اور زیورات پہنائے گئے اور پری چہرہ اور حسن و جمال کی دیوی ساتھ لے گئی تھی۔ گھر کی تلاشی لی گئی تو ملبوسات اور زیورات مل گئے۔ حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کے لئے قاضی نے ایک رات عورت کے محلے کا بھیس بدل کر گشت کیا تو لوگوں کو اس عورت کی شرافت کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے پایا آغا کے محلے میں اسے شرارتی مکار اور خوبصورت عورتوں کو ورغلا کر ان کی عزتوں کو داغدار کرنے والا بھنورا قرار دیا جا رہا تھا۔ لیکن اسلام قبول کرنے اور نکاح کا معاملہ اور خاتون کے گھر سے ملبوسات اور زیورات ملنا ہنوز معمہ تھا۔ منصف کے ذہن میں اچانک ہندو خاندان کی دھوبن کا خاکہ ابھرا۔ حاکم وقت نے اسے دربار میں طلب کیا۔ تھوڑی سی سختی کرنے پر اس نے اقرار کر لیا کہ آغا کے لالچ دینے پر اس نے ہندو گھرانے میں کپڑے اور زیورات رکھے تھے۔ جب مولوی صاحب خاتون کو مسلمان کر رہے اور نکاح پڑھا رہے تھے تو تن ڈھانپے وہی وہاں بیٹھی تھی۔ اس پر آغا اور دھوبن دونوں کو پھانسی لگا دی گئی۔
یہ حاکم جج اور قاضی نواب محمد زکریا خان تھے جو مغلیہ دور میں 1726ء سے 1745ء تک لاہور کے گورنر رہے۔ وہ نہایت بہادر، دور اندیش، صلح جُو، انصاف پرور حکمران اور پکے مسلمان تھے۔ زکریا خان کے کردار اور انصاف کے باعث ہندو، مسلمان اور سکھ سب شیر و شکر تھے۔ ان کے دورِ اقتدار میں فرقہ ورانہ فسادات کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ ان کے دور میں رعایا خوشحال اور مالامال تھی۔ 1738ء میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے ہندوستان پر یلغار کی۔ زکریا خان کو پتہ تھا وہ کتنے پانی میں ہے اس نے مقابلے کی تیاری ضرور کی تاہم دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے نادر شاہ کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا۔ نادر شاہ نے ملاقات کی اور 30 لاکھ روپیہ نذرانے کے عوض زکریا خان نے 5 لاکھ لاہوریوں کو تباہی و بربادی سے بچا لیا۔
ایک دن زکریا خان کے پاس سیالکوٹ سے ایک مقدمہ آیا۔ جو اس کی دور اندیشی، صلح جوئی، مذہبی یکجہتی و ہم آہنگی کیلئے چیلنج تھا۔ ایک ہندو کھتری کے اکلوتے بیٹے حقیقت رائے جس کے ننھیال سکھ تھے نے حضورؐ اور حضرت فاطمہؓ کی شان میں گستاخی کی تھی۔ زکریا خان نے اسے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ اس پر ہندو، سکھ افسر اور اشرافیہ نے دربار میں حاضر ہو کر سزا معاف کرانے کی پوری کوشش کی۔ زکریا کو پتہ تھا کہ یہ ایک نازک اور حساس معاملہ ہے۔ غیر مسلم رعایا بپھر سکتی ہے اور ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے مگر زکریا خان ناموس رسالت اور عشقِ رسولؐ پر سمجھوتہ کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ مجرم کو پہلے درخت سے باندھ کر کوڑے لگوائے اور پھر اس کی گردن اڑا دی۔ حقیقت رائے کی مڑھی کوٹ خواجہ سعید لاہور میں ہے جس پر ہر سال بسنت میلا ہوتا ہے۔ یہ روایت کالورام نے شروع کی۔ بسنت حقیقت رائے کی یاد میں ہندو اور سکھ مناتے ہیں۔ آج اسی بسنت کو ہم نے اپنے کلچر کا حصہ بنا لیا ہے۔ نادانستگی میں ہم نے جو بسنت منا لی وہ منا لی۔ اب جبکہ علم ہو گیا ہے کہ یہ گستاخِ رسول کی موت کا دن منانے کی یاد میں منائی جاتی ہے تو اس سے احتراز اور انکار لازم ہو گیا ہے۔ اب فروری کی آمد آمد ہے جس میں بسنت منائی جاتی ہے۔ مسلمان ملک میں بسنت کوئی بھی منائے اس کی وجہ تخلیق کے باعث اسے جبری روک دینا ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔ بسنت منانے کی ضد کرنے والے روشن خیال کچھ اوپر اور کچھ باہر چلے گئے۔ پنجاب میں شریفوں کی حکومت ہے لیکن وہ اتنے بھی شریف نہیں کہ کسی کو بسنت کے نام پر بدمعاشی کرنے دیں۔ ویسے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہمیں خود کو کالورام کہلانا پسند ہے یا نواب زکریا خان کی طرح عاشق رسولؐ بننا۔

No comments:

Post a Comment