ہفتہ ، 22 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
یہ ہماری شامتِ اعمال ہے، خدا کی طرف سے وبال ہے یا خود ہمارے ہاتھوں سے تراشے ہوئے حکمرانوں کا کمال ہے کہ قوم لائن میں لگی ہے۔ دور بہت تیز ہو گیا۔ مصروفیت ہی مصروفیت، بڑے ضروری کام رہ جاتے ہیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے کئی مصروفیات سمیٹنا پڑتی ہیں۔ لیکن لائن میں لگنے کےلئے ٹائم نکالنا ناگزیر ہے۔ کون ہے جو دعویٰ کرے کہ وہ کبھی لائن میں نہیں لگا۔ وہی لائن میں نہیں لگا جو زندگی کے ہاتھوں کھڈے لائن لگا ہے۔ کبھی سینما گھروں میں ٹکٹ کے لئے لائنیں لگتی تھیں۔ اپنی مونچھوں کے برابر ہنٹر لہراتا ہوا کڑیل نوجوان لائن مینی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ آج عموماً کوڑا برداروں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم خود ہی نظم و ضبط کے پابند ہو گئے ہیں۔ کوئی غیر ملکی صرف ہماری لائنیں دیکھ کر ہمیں دنیا کی منظم ترین قوم قرار دے دیگا۔ ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ کے لئے لائن، پھر ٹکٹ چیک کرانے اور گاڑی تک پہنچنے کے لئے لائن۔ گھی، آٹا اور چینی کے حصول کے لئے یوٹیلٹی سٹور اور خصوصی بازاروں میں لائن، بجلی گیس اور پانی ہے یا نہیں، کم ہے یا زیادہ، بل تو ہے ہر ماہ، بلاناغہ۔ یہ بل جمع کرانے کے لئے لائن۔ پاسپورٹ شناختی کارڈ بنوانے کے لئے لائن۔ ائرپورٹ پر لائن در لائن، طلباءکی فیس داخلے جمع کرانے اور فارموں کے لئے لائن۔ کیا ڈسپلن قائم کیا ہماری سرکار نے۔ محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ کم از کم لائن کی حد تک تو امیر و غریب کا فرق ختم ہو گیا۔ لائن بھی ایک ذمہ داری اور ضرورت بن گئی، جس طرح ضرورت ایجاد کی ماں ہے لائن بھی اسی طرح حرزِ جاں ہے۔ تین بچوں کا باپ کسی سے کہہ رہا تھا۔ ایک بیٹے کو پُلسیا بنا دیا دوسرے کو لوٹ مار پر لگا دیا۔ آپ غلط سمجھے سیاستدان، وزیر مشیر بینکار اور افسر بنا کر نہیں چھوٹی موٹی چوری اور رہزنی یا پاکٹ ماری کی صورت میں۔ تیسرا مسیتڑی ہے کاش چوتھا ہوتا تو لائن مین لگا دیتا۔ لائنیں لگانے سے جہاں قوم میں ڈسپلن آیا وہیں اعصاب اور جسم و جان بھی مضبوط ہوئے۔ لائنوں میں حضرات ہی نہیں نازک بدن غنچہ دھن، مہ وش پری وش خواتین کو بھی لگنا پڑتا ہے۔ گیس اور پٹرول کی قلت نے لائنوں کا نیا رجحان پیدا کیا ہے۔ سی این جی سٹیشنوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ سی این جی سٹیشن بے شمار ہیں لیکن گاڑیوں کی تعداد بھی لاتعداد، اس لائن سے نکل کر ٹریفک سگنل پر لائن۔ کسی گاڑی نے بریک لگا دی تو سڑک پر لائن، کہیں سڑک زیر تعمیر ہے۔ سڑک پر کھڈا ہے وہاں بھی لائن۔ کہیں کسی وجہ سے اور کہیں بلاوجہ لائن۔ ٹریفک کی لائنوں کا بڑا سبب ایک ہی ہے۔ گاڑیاں سڑکوں پر قطار اندر قطار آ گئی ہیں۔ آپ چوک یا سڑک پر کھڑے ہو ملاحظہ فرمائیے چند منٹ میں سینکڑوں کاریں آپ کی نظروں کے سامنے گزریں گی۔ ان میں چند ایک کے سوا تمام میں صرف ایک بندہ ہو گا۔ ایک کار میں ایک سوار، کچھ خوشی اور کچھ مجبوری سے۔ گھر سے دفتر تک بس یا ٹرین ملے تو یقیناً 90 فیصد سے زائد کار اور موٹر سائیکل سوار انہیں پر سفر کریں۔ بڑے شہروں میں بسیں ضرور چلتی ہیں۔ تعداد میں کمی اور رش کے باعث چند میل کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اوپر سے کرائے بھی بلا بریک۔ قوموں کی زندگی میں دو چار دس یا بیس سال کوئی معنی نہیں رکھتے۔ کوئی پلاننگ اور منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رکھنے سے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ آج ٹریفک کا بہاﺅ برقرار رکھنے کے لئے سڑکوں میں توسیع کی بات ہوتی ہے۔ ٹریفک کم کرنے کی نہیں۔ بڑے شہروں میں سرکولر ٹرینیں چلائی جا سکتی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ مینج کی جا سکتی ہے۔ کراچی میں سرکولر ریلوے ہے اس میں توسیع اور بہتری کی جا سکتی ہے۔ لاہور میں بھی ایسا ہی منصوبہ کبھی تھا اس کو بھی شاید وزیر ریلوے بلور گاندھی چاٹ گئے۔ حکمرانوں کی ذرا سی توجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ میں فوری بہتری لائی جا سکتی ہے۔ خلق خدا کی خدمت پر یقین رکھنے والوں کو آگے لایا جائے۔ تجوریاں بھرنے والوں سے مسافروں کی جان چھڑائی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ آرام دہ، بروقت اور ہر وقت دستیاب، کرائے کم ہوں تو کاروں موٹر سائیکلوں کے بجائے لوگ اس پر سفر کریں۔ اس سے شہروں میں ٹریفک کا بوجھ ہلکا آلودگی اور گاڑیوں کی لائنوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ لاہور کو استنبول کی طرح صاف ستھرا دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ ٹریفک کے مسائل حل کر دیں تو لاہور کیا تمام شہروں کو صاف ستھرا دیکھنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
فضل حسین اعوان
یہ ہماری شامتِ اعمال ہے، خدا کی طرف سے وبال ہے یا خود ہمارے ہاتھوں سے تراشے ہوئے حکمرانوں کا کمال ہے کہ قوم لائن میں لگی ہے۔ دور بہت تیز ہو گیا۔ مصروفیت ہی مصروفیت، بڑے ضروری کام رہ جاتے ہیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے کئی مصروفیات سمیٹنا پڑتی ہیں۔ لیکن لائن میں لگنے کےلئے ٹائم نکالنا ناگزیر ہے۔ کون ہے جو دعویٰ کرے کہ وہ کبھی لائن میں نہیں لگا۔ وہی لائن میں نہیں لگا جو زندگی کے ہاتھوں کھڈے لائن لگا ہے۔ کبھی سینما گھروں میں ٹکٹ کے لئے لائنیں لگتی تھیں۔ اپنی مونچھوں کے برابر ہنٹر لہراتا ہوا کڑیل نوجوان لائن مینی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ آج عموماً کوڑا برداروں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم خود ہی نظم و ضبط کے پابند ہو گئے ہیں۔ کوئی غیر ملکی صرف ہماری لائنیں دیکھ کر ہمیں دنیا کی منظم ترین قوم قرار دے دیگا۔ ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ کے لئے لائن، پھر ٹکٹ چیک کرانے اور گاڑی تک پہنچنے کے لئے لائن۔ گھی، آٹا اور چینی کے حصول کے لئے یوٹیلٹی سٹور اور خصوصی بازاروں میں لائن، بجلی گیس اور پانی ہے یا نہیں، کم ہے یا زیادہ، بل تو ہے ہر ماہ، بلاناغہ۔ یہ بل جمع کرانے کے لئے لائن۔ پاسپورٹ شناختی کارڈ بنوانے کے لئے لائن۔ ائرپورٹ پر لائن در لائن، طلباءکی فیس داخلے جمع کرانے اور فارموں کے لئے لائن۔ کیا ڈسپلن قائم کیا ہماری سرکار نے۔ محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ کم از کم لائن کی حد تک تو امیر و غریب کا فرق ختم ہو گیا۔ لائن بھی ایک ذمہ داری اور ضرورت بن گئی، جس طرح ضرورت ایجاد کی ماں ہے لائن بھی اسی طرح حرزِ جاں ہے۔ تین بچوں کا باپ کسی سے کہہ رہا تھا۔ ایک بیٹے کو پُلسیا بنا دیا دوسرے کو لوٹ مار پر لگا دیا۔ آپ غلط سمجھے سیاستدان، وزیر مشیر بینکار اور افسر بنا کر نہیں چھوٹی موٹی چوری اور رہزنی یا پاکٹ ماری کی صورت میں۔ تیسرا مسیتڑی ہے کاش چوتھا ہوتا تو لائن مین لگا دیتا۔ لائنیں لگانے سے جہاں قوم میں ڈسپلن آیا وہیں اعصاب اور جسم و جان بھی مضبوط ہوئے۔ لائنوں میں حضرات ہی نہیں نازک بدن غنچہ دھن، مہ وش پری وش خواتین کو بھی لگنا پڑتا ہے۔ گیس اور پٹرول کی قلت نے لائنوں کا نیا رجحان پیدا کیا ہے۔ سی این جی سٹیشنوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ سی این جی سٹیشن بے شمار ہیں لیکن گاڑیوں کی تعداد بھی لاتعداد، اس لائن سے نکل کر ٹریفک سگنل پر لائن۔ کسی گاڑی نے بریک لگا دی تو سڑک پر لائن، کہیں سڑک زیر تعمیر ہے۔ سڑک پر کھڈا ہے وہاں بھی لائن۔ کہیں کسی وجہ سے اور کہیں بلاوجہ لائن۔ ٹریفک کی لائنوں کا بڑا سبب ایک ہی ہے۔ گاڑیاں سڑکوں پر قطار اندر قطار آ گئی ہیں۔ آپ چوک یا سڑک پر کھڑے ہو ملاحظہ فرمائیے چند منٹ میں سینکڑوں کاریں آپ کی نظروں کے سامنے گزریں گی۔ ان میں چند ایک کے سوا تمام میں صرف ایک بندہ ہو گا۔ ایک کار میں ایک سوار، کچھ خوشی اور کچھ مجبوری سے۔ گھر سے دفتر تک بس یا ٹرین ملے تو یقیناً 90 فیصد سے زائد کار اور موٹر سائیکل سوار انہیں پر سفر کریں۔ بڑے شہروں میں بسیں ضرور چلتی ہیں۔ تعداد میں کمی اور رش کے باعث چند میل کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اوپر سے کرائے بھی بلا بریک۔ قوموں کی زندگی میں دو چار دس یا بیس سال کوئی معنی نہیں رکھتے۔ کوئی پلاننگ اور منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رکھنے سے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ آج ٹریفک کا بہاﺅ برقرار رکھنے کے لئے سڑکوں میں توسیع کی بات ہوتی ہے۔ ٹریفک کم کرنے کی نہیں۔ بڑے شہروں میں سرکولر ٹرینیں چلائی جا سکتی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ مینج کی جا سکتی ہے۔ کراچی میں سرکولر ریلوے ہے اس میں توسیع اور بہتری کی جا سکتی ہے۔ لاہور میں بھی ایسا ہی منصوبہ کبھی تھا اس کو بھی شاید وزیر ریلوے بلور گاندھی چاٹ گئے۔ حکمرانوں کی ذرا سی توجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ میں فوری بہتری لائی جا سکتی ہے۔ خلق خدا کی خدمت پر یقین رکھنے والوں کو آگے لایا جائے۔ تجوریاں بھرنے والوں سے مسافروں کی جان چھڑائی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ آرام دہ، بروقت اور ہر وقت دستیاب، کرائے کم ہوں تو کاروں موٹر سائیکلوں کے بجائے لوگ اس پر سفر کریں۔ اس سے شہروں میں ٹریفک کا بوجھ ہلکا آلودگی اور گاڑیوں کی لائنوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ لاہور کو استنبول کی طرح صاف ستھرا دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ ٹریفک کے مسائل حل کر دیں تو لاہور کیا تمام شہروں کو صاف ستھرا دیکھنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment