About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, January 7, 2011

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام


فضل حسین اعوان
7-1-11
NOT PUBLISHED

بعض لوگ اپنی خواہش کا سوال کی صورت میں اظہار کر رہے ہیں کہ ممتاز قادری کو سلمان تاثیر کے قتل کے فوری بعد ساتھی محافظوں نے قتل کیوں نہیں کر دیا۔ اگر ان لوگوں کی خواہش کے مطابق اوپر نیچے دو قتل ہو جاتے تو تیسرا ساتھ ہی حقائق کا قتل بھی ہوتا۔ ملزم کا کوئی طالبان سے ناطہ جوڑتا کوئی القاعدہ سے۔ کوئی اسے ایجنسیوں کا پروردہ قرار دیتا کوئی را اور موساد کا ایجنٹ۔ ہر معاملے کو مفاداتی چشمے سے دیکھنے کے عادی کچھ مہربان تصویر پوری طرح واضح ہونے کے باوجود اسے سیاسی قتل ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ ذمہ دار لوگوں کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ ملزم زیر حراست، اس کا ریمانڈ مل گیا۔ حکومت آپ کی اپنی، حقائق منظر عام پر لانے کے لئے جوڈیشل کمشن سے بہتر کوئی فورم اور پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا۔ کسی کو دوش دیں نہ جانبداری کا الزام خود پہ لیں۔ عدالتی کمشن کے ذریعے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے دیں۔ 
18 کروڑ لوگوں میں سے صرف ایک نے، خود اس کی اپنی سٹیٹمنٹ کے مطابق گورنر صاحب کو 295 سی کو کالا قانون کہنے پر قتل کیا۔ اس پر خودساختہ دانشمندوں اور خود پرداختہ عقلمندوں نے معاشرے میں عدم برداشت کلچر کے فروغ کا شور شرابہ اور واویلا شروع کر دیا۔ ان عقل کے سقراطوں اور حکمت کے بقراطوں کو کینیڈی، مہاتما گاندھی، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، اکینو، شاہ فیصل، جمال عبدالناصر، انور السادات، شیخ مجیب الرحمن بمعہ خاندان، شاہ بریندرہ بشمول اہل خانہ کے زمین و آسمان کو دہلا دینے والے قتلوں میں تو عدمِ برداشت کا کوئی پہلو نظر آتا۔ سلمان تاثیر کے قتل سے پورے معاشرے میں سمائی عدم برداشت نظر آ رہی ہے۔ بہت سوں کی سوئی اختلافِ رائے کے احترام پر اٹکی ہوئی ہے.... ایک طبقہ این آر او کو قومی مفاد میں دوسرا اسے کرپشن کا تحفظ قرار دیتا ہے۔ ایک گروپ ٹیکسوں کے نفاذ کا حامی دوسرا مخالف ہے۔ ایک گروہ امریکہ سے دوستانہ تعلقات کا قائل دوسرا چین کے ساتھ دوستی پر مائل ہے۔ اسے اختلافِ رائے کا نام دیا جا سکتا ہے۔ جنرل ضیاءنے بھٹو کو تخت سے اتار کر تختہ دار تک پہنچا دیا۔ مشرف نے نوازشریف کو روشنیوں میں نہائے اور بقعہ نور بنے وزیراعظم ہاﺅس سے اٹھوا کر اندھیری کوٹھڑی، پھر موت کی موری میں پھینک دیا۔ نوازشریف کے ناک کا بال حسین حقانی بینظیر بھٹو کی قابلِ اعتراض تصاویر ٹمپر کروا کے جہاز کے ذریعے برسواتا رہا۔ چند روز قبل چودھری نثار نے جو کچھ الطاف حسین اور وسیم اختر اور حیدر عباس رضوی نے نواز و شہباز شریف کے بارے میں کہا، کیا یہ معاملات بھی اختلافِ رائے کے زمرے میں آتے ہیں۔ کچھ حکومتی مبصرین، سیاسی اکابرین، اینکر پرسن اختلافِ رائے پر پُرزور اور پرجوش دلائل دیتے ہیں تو ان کے منہ سے جھاگ بہنے لگتی ہے۔ اختلافِ رائے اور دریدہ دہنی اور بدزبانی میں فرق یہ خود نہیں کر سکتے یا نہیں کرنا چاہتے، بُرا بھلا معاشرے کو کہہ رہے ہیں۔ سلمان تاثیر توہینِ رسالت قانون میں تبدیلی کی بات کرتے تو یقیناً بات ان کے قتل تک نہ پہنچتی۔ انہوں نے تحفظ ناموسِ رسالت قانون کو کالا قانون قرار دیا جس سے محبانِ رسول کے جذبات مجروح ہوئے۔ پھر گورنر صاحب کے موقف میں ان کو این جی اوز، جدت پسندوں کی طرف سے تھپکی ملنے پر سختی آتی گئی۔ سلمان تاثیر کے قتل کا اصل ذمہ دار یہی طبقہ اور حلقہ ہے جس نے ان کو اہل وطن کے شدید جذبات کا ادراک کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے، آسیہ کو مظلوم ثابت کیا اور اس کی رہائی کی گنجلک ڈور سلمان تاثیر کو تھما دی۔ غامدی صاحب کی سوچ ملاحظہ کیجئے فرماتے ہیں گورنر کی بات کا جواب دلیل سے دیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے ناموسِ رسالت ایکٹ کو کالا قانون قرار دیا پھر اس پر ڈٹ بھی گئے۔ آپ اس کے جواب میں کیا دلیل دیں گے؟ سلمان تاثیر قتل کر دئیے گئے ان کے لواحقین پر قیامت گزر گئی ہر پاکستانی ان کے سوگوار خاندان کے ساتھ ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے۔ اب بھی کچھ لبرل طبقے ایسی باتیں کر رہے ہیں جو توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں۔ مذہبی معاملات خصوصی طور پر توہین رسالت کے حوالے سے نہایت ہی احتیاط کی ضرورت ہے
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
یہ کہہ کر رحمن ملک نے ہر مسلمان کے جذبات کو زبان دیدی ”میرے سامنے کوئی شانِ رسالت میں گستاخی کرے تو اُسے گولی مار دوں“ علمائے کرام کا جنازہ پڑھانے سے انکار لبرل جدت پسندوں اور روشن خیالوں کے لئے واضح پیغام ہے۔ 

No comments:

Post a Comment