فضل حسین اعوان
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ لسٹ کے مطابق گزشتہ سال 2009-10 کے مقابلے میں رواں سال 2010-11 میں کرپٹ ممالک کی لسٹ میں صومالیہ افغانستان کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر آ گیا۔ ٹاپ ٹن کرپٹ ممالک کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ (1) صومالیہ، (2) میانمار، (3) افغانستان، (4) عراق، (5) ازبکستان، (6) ترکمانستان، (7) سوڈان، (8) چاڈ، (9) برونڈی، (10) گیانا۔ گو اندھیر نگری چوپٹ راج کے باوجود پاکستان ٹاپ ٹن میں نہیں تاہم ان دس کرپٹ ترین ممالک میں اکثریت مسلمان ممالک کی ہے۔ گزشتہ دنوں برطانوی انٹرفیتھ تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں سالانہ 5 ہزار غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں بھی اسلام قبول کرنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ لوگ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ ہونے پر اسلامی تعلیمات کی طرف مائل ہوئے۔ اس دوران اسلام کی حقانیت واضح ہوئی تو اسلام قبول کر لیا۔ اگر 57 اسلامی ممالک اپنے قوانین قرآن و سنہ کے مطابق نافذ کر لیں اور ہم مسلمان اسوہ رسولؐ کو عملی زندگی میں اپنا لیں تو جہاں خود بہت سے مصائب سے بچ سکتے ہیں وہیں ہمارے کردار و عمل کو دیکھ غیر مسلم مزید تیزی سے اسلام قبول کرنے لگیں گے۔
چند سال قبل دنیا کے دس کرپٹ ترین حکمرانوں کی ان کے کرپشن سے بنائے گئے اثاثہ جات سمیت ایک فہرست جاری کی گئی۔ ان ٹاپ ٹن میں ٹاپ پر بھی ایک مسلم حکمران انڈونیشیا کے محمد سہارتو تھے۔ یہ 1967ء سے 1998ء تک صدر رہے اس دوران 35 ارب ڈالر تک کی لوٹ مار کی۔ فلپائن کے صدر مارکوس 10 ارب ڈالر کی کرپشن کے ساتھ دوسرے، زائرے کے صدر موبوتو سیکو 5 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ چوتھے نمبر پر نائجیریا کے صدر ثانی اباچہ، پانچویں صدر سربیا میلوسووچ، چھٹے صدر ہیٹی جین کلاڈا، ساتویں صدر پیرو البرٹو، آٹھویں وزیراعظم یوکرائن پیولو لازارینو، نویں صدر نکاراگوا آرنالڈو، دسویں صدر فلپائن جوزف اسٹراڈا۔ اگر یہ لسٹ آج ترتیب دی جاتی تو سابق صدر مشرف کرپٹ ترین حکمرانوں میں دوسرے نمبر پر ہوتے کیونکہ وہ اکیلے ہی امریکی امداد کے 10 ارب ڈالر ہضم کر گئے تھے۔ 2013 کے بعد غیر جانبداری سے مرتب کردہ فہرست میں شاید عالمی رینکنگ میں سوہارتو دوسرے اور مشرف تیسرے نمبر پر آ جائیں۔
آج ہم سب سے بڑی اور موذی بیماری کرپشن کا شکار ہیں۔ یوں تو چند ایک کے سوا تمام وزیر مشیر عوامی نمائندے اور بیورو کریٹس بدعنوان ہیں تاہم دو بڑوں کی طرف بڑی بڑی کرپشن کے حوالے سے انگلیاں اٹھتی رہتی ہیں۔ دو میں پہلے نمبر ایک کون ہے خُدا بہتر جانتا ہے۔ تاہم آج کل گیلانی صاحب کا نام خوب چمک رہا ہے۔ خود ان کے اپنے برطرف شدہ وزیر جناب اعظم سواتی نے ان کو پاکستان کی تاریخ کا کرپٹ ترین وزیراعظم قرار دیا ہے۔ اس پر شرمیلا فاروقی کا سوال بجا ہے کہ سواتی کو گیلانی صاحب کی کرپشن برطرفی کے بعد ہی کیوں یاد آئی؟ یہ سوال اپنی جگہ، اگر کرپشن ہوئی ہے تو اس کا جواب تو بہرحال دینا پڑے گا۔ گیلانی صاحب کے اہل خانہ کا نام بھی کرپشن کے حوالے سے لیا جاتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ وزیراعظم اپنی اولاد کو مالدار بنانے کے لئے آباء کا نام داغدار کر رہے ہیں۔ صدارت اور وزارت عظمٰی کے مناصب کا تقاضا ہے کہ ان پر متمکن شخصیات کا کردار کرسٹل کلیئر ہو۔ بعض اوقات الزام برائے الزام ہو سکتا ہے لیکن جس الزام سے پگڑی اچھلتی ہو، خاندان کی عزت و عظمت پر داغ لگ رہا ہو اس سے پیچھا ضرور چھڑانا چاہئے۔ وزراء حضرت بشمول دو بڑوں کے اپنے اوپر کرپشن کے الزام لگانے والوں کو عدالت میں لے جائیں۔ الزام غلط ہوں تو الزام لگانے والوں سے ہرجانہ وصول کیا جائے۔ خاموش بیٹھ جانے سے ثابت ہو جائے گا کہ الزامات درست ہیں۔ اگر درست ہیں تو ان کو اعلیٰ ترین مناصب پر جلوہ گر رہنے کا کوئی حق نہیں نوازشریف اپنے ایجنڈے میں بڑوں سے کرپشن کا مال نکلوانے کے نکتے کو سرفہرست رکھیں۔
No comments:
Post a Comment