ہفتہ ، 29 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
فضل حسین اعوان
سلطنت عثمانیہ کی زوال پزیر معیشت سے سلطان عبدالحمید پریشان تھے۔ یہودیوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ترک یہودی قرہ صوہ آفندی کی قیادت میں ایک وفد نے سلطان عبدالحمید سے ملاقات کے دوران پیش کش کی کہ آپ فلسطین اور بیت المقدس یہودیوں کے حوالے کر دیں ہم سلطنت کے تمام قرض ادا کر دیں گے اور بھرپور مالی امداد بھی کریں گے۔ سلطان نے یہودیوں کی پیشکش یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ وہ ناخن کے برابر زمین بھی نہیں دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف سازشیں تیز ہو گئیں۔ پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی جس سے تاریخ بدلی اور بہت سے ملکوں کا جغرافیہ بھی۔ سلطنت عثمانیہ بھی بکھر گئی۔ مصطفیٰ کمال پاشا المعروف کمال اتاترک سامراج کا ایجنٹ ٹھہرا۔ اس کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا پروانہ قرہ صوہ آفندی لے کر سلطان عبدالحمید کے پاس پہنچا تھا۔ کمال اتا ترک کی والدہ یہودی تھی۔ اس کی تربیت میں باپ سے زیادہ ماں کا اثر تھا۔ اس لئے اتاترک نے مسلمانوں کیلئے تضحیک آمیز اور رسوا کن قوانین بنائے۔ علماءکو قتل کیا گیا‘ اذان اور عربی میں نماز اور تلاوت قرآن مجید پر پابندی لگا دی۔ حجاب نقاب اور اسلامی لباس کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا۔ نصاب سے اسلامی مواد خارج کر دیا گیا۔
تیونس کے صدر زین العابدین کی ماں اور باپ دونوں مسلمان تھے۔ انہوں نے محض اپنے اقتدار کے دوام اور طوالت کےلئے مغرب کی نقالی کرتے ہوئے اسلامی شعائر کا مضحکہ اڑایا۔ حجاب نقاب اور پردے کو سختی سے روکا گیا‘ اذان پر پابندی‘ نماز کی ادائیگی صرف مسجد میں ہو سکتی تھی۔ کھلے عام ادائیگی پر سزا دی جاتی‘ قرآن کو الماریوں کی زینت بنا دیا گیا۔ جمعہ کے خطبے میں صدر کی تعریف لازم تھی۔ داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ مردوں کو روایتی لباس گھٹنوں کے نیچے تک قمیض پہننے سے روک دیا گیا۔ امریکہ کی کاسہ لیسی میں ہمارے حکمرانوں کی طرح زین العابدین بن علی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آقا کی ہدایت پر 2005ءمیں امریکہ کے لے پالک اسرائیل سے دوستی کر لی۔ اس کے باوجود کہ اسرائیل نے 1986ءمیں یاسر عرفات کے تیونس میں واقع ہیڈ کوارٹر پر بمباری کی تھی۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ انسانیت اور مسلمانوں کے دشمن‘ جنگی مجرم ایریل شیرون کو اپنے ہاں مدعو بھی کر لیا۔ زین مغربی آقا ¶ں کی خوشنودی کی خاطر ان کے سامنے بے دام رقاصہ کی طرح ناچتا رہا مذہبی معاملات میں مداخلت پر تو تیونس کے شہریوں کا ضمیر نہیں جاگا۔ البتہ مہنگائی اور بیروزگاری پر تن من میں آگ لگ گئی۔ جس سے اس پر قہر اور غضب ٹوٹا تو اس کی اہلیہ لیلیٰ دیگر سامان کے ساتھ ڈیڑھ ٹن سونا لے کر دبئی چلی گئی۔ دوسرے دن زین کا جہاز بھی بے منزل پرواز کر گیا۔ زین کو زعم تھا کسی بھی ملک چلا جائے گا۔ سب سے پہلے فرانس نے رابطہ کرنے پر انکار کیا تو امریکہ بات کرنے کی کوشش کی اوباما نے فون سنا نہ اس کی انتظامیہ کے کسی عہدیدار نے۔ لندن سے بھی منفی جواب ملا۔ مراکش اور جنیوا نے بھی جہاز کا رخ اپنے ممالک کی طرف کرنے سے روک دیا تو اسے سعودی عرب یاد آگیا۔ سعودی حکمران عدی امین ہو یا نواز شریف ہر ٹھکرائے اور شکنجے میں آئے ہوئے مسلمان حکمران کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ دو عظیم ترین مساجد کی سرزمین پر زین العابدین اور اس کی بیگم اب پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں دونوں نے خود کو چشم زدن میں اسلامی ڈھانچے میں ڈھال لیا۔ لیلیٰ باقاعدہ عبایا پہنتی اور حجاب اوڑھتی ہے۔
امریکہ کے کرائے کے پُتر حسنی مبارک نے بھی مصر کو اتاترک اور زین العابدین کی طرح سیکولر بنا رکھا ہے۔ اس نے اپنی مذہبی خودداری اور خود مختاری امریکہ کے قدموں میں ڈھیر کر دی۔ جو فلسطینیوں کو دبانے میں اسرائیل کا معاون ہے۔ مصر نے ہی غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ تاہم لوگ مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آکر اب مائل بہ جنگ ہیں۔ یہاں بھی تیونس والی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اخوان المسلمین نے ساتھ دیا تو حسنی مبارک کو بھی شاید بھاگنا پڑے۔ بھاگ کر کہاں جائیں گے؟ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک شہنشاہ ایران کوپناہ دینے کے تجربے کے باعث کسی کو بھی پناہ دینے سے تائب ہو چکے۔ ان کا ٹھکانہ بھی جدہ میں ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں کا بھی ٹریک ریکارڈ مصر اور تیونس کے حکمرانوں جیسا ہے۔ مذہبی اور ملکی معاملات سمیت ہر حوالے سے۔ 100 رکنی کابینہ میں تلاوت کےلئے ایک بھی آدمی میسر نہیں۔ صلیبی جنگ میں یہود و نصاریٰ کا ساتھ دیا جا رہا ہے۔ پوپ کے اسلام دشمن بیان پر خاموشی‘ عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ امن عنقا ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ کسی بھی وقت لبریز ہو سکتا ہے۔ پھر ہمارے حکمران کہاں جائیں گے۔ جدہ۔ اس کےلئے بھی تیاری کر لیں۔ وضو کرنا سیکھ لیں۔نماز یاد کریں روزوں کی مشق کریں۔
تیونس کے صدر زین العابدین کی ماں اور باپ دونوں مسلمان تھے۔ انہوں نے محض اپنے اقتدار کے دوام اور طوالت کےلئے مغرب کی نقالی کرتے ہوئے اسلامی شعائر کا مضحکہ اڑایا۔ حجاب نقاب اور پردے کو سختی سے روکا گیا‘ اذان پر پابندی‘ نماز کی ادائیگی صرف مسجد میں ہو سکتی تھی۔ کھلے عام ادائیگی پر سزا دی جاتی‘ قرآن کو الماریوں کی زینت بنا دیا گیا۔ جمعہ کے خطبے میں صدر کی تعریف لازم تھی۔ داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ مردوں کو روایتی لباس گھٹنوں کے نیچے تک قمیض پہننے سے روک دیا گیا۔ امریکہ کی کاسہ لیسی میں ہمارے حکمرانوں کی طرح زین العابدین بن علی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آقا کی ہدایت پر 2005ءمیں امریکہ کے لے پالک اسرائیل سے دوستی کر لی۔ اس کے باوجود کہ اسرائیل نے 1986ءمیں یاسر عرفات کے تیونس میں واقع ہیڈ کوارٹر پر بمباری کی تھی۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ انسانیت اور مسلمانوں کے دشمن‘ جنگی مجرم ایریل شیرون کو اپنے ہاں مدعو بھی کر لیا۔ زین مغربی آقا ¶ں کی خوشنودی کی خاطر ان کے سامنے بے دام رقاصہ کی طرح ناچتا رہا مذہبی معاملات میں مداخلت پر تو تیونس کے شہریوں کا ضمیر نہیں جاگا۔ البتہ مہنگائی اور بیروزگاری پر تن من میں آگ لگ گئی۔ جس سے اس پر قہر اور غضب ٹوٹا تو اس کی اہلیہ لیلیٰ دیگر سامان کے ساتھ ڈیڑھ ٹن سونا لے کر دبئی چلی گئی۔ دوسرے دن زین کا جہاز بھی بے منزل پرواز کر گیا۔ زین کو زعم تھا کسی بھی ملک چلا جائے گا۔ سب سے پہلے فرانس نے رابطہ کرنے پر انکار کیا تو امریکہ بات کرنے کی کوشش کی اوباما نے فون سنا نہ اس کی انتظامیہ کے کسی عہدیدار نے۔ لندن سے بھی منفی جواب ملا۔ مراکش اور جنیوا نے بھی جہاز کا رخ اپنے ممالک کی طرف کرنے سے روک دیا تو اسے سعودی عرب یاد آگیا۔ سعودی حکمران عدی امین ہو یا نواز شریف ہر ٹھکرائے اور شکنجے میں آئے ہوئے مسلمان حکمران کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ دو عظیم ترین مساجد کی سرزمین پر زین العابدین اور اس کی بیگم اب پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں دونوں نے خود کو چشم زدن میں اسلامی ڈھانچے میں ڈھال لیا۔ لیلیٰ باقاعدہ عبایا پہنتی اور حجاب اوڑھتی ہے۔
امریکہ کے کرائے کے پُتر حسنی مبارک نے بھی مصر کو اتاترک اور زین العابدین کی طرح سیکولر بنا رکھا ہے۔ اس نے اپنی مذہبی خودداری اور خود مختاری امریکہ کے قدموں میں ڈھیر کر دی۔ جو فلسطینیوں کو دبانے میں اسرائیل کا معاون ہے۔ مصر نے ہی غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ تاہم لوگ مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آکر اب مائل بہ جنگ ہیں۔ یہاں بھی تیونس والی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اخوان المسلمین نے ساتھ دیا تو حسنی مبارک کو بھی شاید بھاگنا پڑے۔ بھاگ کر کہاں جائیں گے؟ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک شہنشاہ ایران کوپناہ دینے کے تجربے کے باعث کسی کو بھی پناہ دینے سے تائب ہو چکے۔ ان کا ٹھکانہ بھی جدہ میں ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں کا بھی ٹریک ریکارڈ مصر اور تیونس کے حکمرانوں جیسا ہے۔ مذہبی اور ملکی معاملات سمیت ہر حوالے سے۔ 100 رکنی کابینہ میں تلاوت کےلئے ایک بھی آدمی میسر نہیں۔ صلیبی جنگ میں یہود و نصاریٰ کا ساتھ دیا جا رہا ہے۔ پوپ کے اسلام دشمن بیان پر خاموشی‘ عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ امن عنقا ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ کسی بھی وقت لبریز ہو سکتا ہے۔ پھر ہمارے حکمران کہاں جائیں گے۔ جدہ۔ اس کےلئے بھی تیاری کر لیں۔ وضو کرنا سیکھ لیں۔نماز یاد کریں روزوں کی مشق کریں۔
No comments:
Post a Comment