اتوار ، 09 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
حضرت صاحب بول کیا رہے تھے‘ ہونٹوں سے پھول جھڑ رہے تھے۔ مجمع پر سحر طاری تھا۔ سانسوں کی آواز تک نہیں آرہی تھی۔ ان کی دعاؤں کی طرح ان کے وعظ میں بھی اثر تھا۔ جو جس خواہش کے ساتھ ان کے پاس آیا وہ خدا نے پوری کی۔ وہ دنیاوی زندگی سے تقریباً کٹ چکے تھے۔ خود کو خدا اور اس کے بندوں کی خدمت کیلئے وقف کر دیا تھا۔ جو ایک بار حضرت صاحب کی درگاہ پر آیا پھر ان کا ہو کر رہ گیا۔ آج بھی وہ توکل علی اللہ کی بات کر رہے تھے۔ حسب معمول اپنی بات ختم کی‘ حاضرین پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور خاموش بیٹھ گئے۔ سامنے بیٹھا ایک شخص اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے گویا ہوا۔ ’’حضرت صاحب میں یہاں پہلی بار آیا ہوں لیکن مجھے پتہ ہے کہ چند سال قبل آپ بڑے سرمایہ دار تھے ایک کارخانے کے مالک پھر یہ انقلاب کیسے آگیا؟ حضرت صاحب نوجوان کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنی روداد بیان کرنے لگے ’’واقعی میں ایک بڑی فیکٹری کا مالک تھا۔ خدا کا بڑا کرم تھا۔ پانچ چھ سو مرد و خواتین ورکر کام کرتے تھے۔ ایک روز میں فیکٹری کے مین گیٹ پر کھڑا تھا کہ ایک کتا اگلی ٹانگوں کے سہارے اپنے وجود کو گھسیٹتا ہوا فیکٹری کے اندر چلا آرہا تھا۔ اس کی پچھلی ٹانگوں سے خون رس رہا تھا۔ یوں لگتا تھا اس کی ٹانگیں کسی گاڑی تلے آکر کچلی گئی ہیں۔ دفعتاً میرے دماغ میں خیالات کا ایک جھماکا کوندا‘ میں نے سن رکھا تھا خدا کیڑے کو پتھر میں بھی روزی دیتا ہے آج اس مقولے یا محاورے کو آزمانے کا موقع تھا۔ دیکھتے ہیں خدا اس معذور کتے کو روزی کیسے پہنچاتا ہے۔ زخمی کتا فیکٹری کے اندر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور کتا فیکٹری کے اندر آیا اور زخمی ساتھی کے قریب چلا گیا۔ اس کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا تھا۔ اس کو اچھی طرح چبا کر نیم بے ہوش کتے کے منہ کے آگے کر دیا۔ زخمی کتے نے آنکھیں کھولیں اور ٹکڑا بغیر چبائے نگل لیا۔ اس کے بعد تندرست کتا باہر چلا گیا تاہم چند منٹ بعد واپس آگیا۔ اب اس نے اپنی دم معذور کتے کے منہ کے آگے کی جسے وہ چاٹنے لگا دراصل کتا اپنی دم پانی سے بھگو کر لایا تھا۔ اپنی دانست میں وہ اپنے ہم جنس کو پانی پلا رہا تھا۔ چند ہفتوں میں زخمی کتا صحت یاب ہو گیا۔ اس دوران اس کا ساتھی کتا ہر روز بلاناغہ اس کے کھانے پینے کا اہتمام کرتا رہا… میں نے زخمی کتے کو کارخانہ قدرت سے روزی ملتے دیکھ کر استدلال لیا کہ جب خدا نے روزی دینی ہی ہے تو دنیا داری‘ ٹنشن‘ پریشانی اور جھنجٹ کی کیا ضرورت‘ اللہ پر توکل کرتے ہوئے کاروبار بند کیا خدا سے لو لگا لی خدا نے مریدوں اور عقیدت مندوں کی وساطت سے روزی میں فراخی فرما دی۔ روزانہ جو لوگ آتے ہیں وہ بھی کھاتے ہیں میں بھی‘‘ مجلس میں بیٹھے ایک اور نوجوان نے بڑے احترام اور دھیمی آواز میں کچھ عرض کرنے کی استدعا کی۔ اذن پر گویا ہوا ’’حضور آپ نے زخمی اور معذور کتے سے استدلال لیا جو اسے کھانا لا کر دیتا تھا اس سے کیوں نہیں؟ یہ فرما دیجئے کہ آپ کس کتے کو اچھا سمجھتے ہیں۔ کھانے والے کو یا کھانا لا کر دینے والے کو؟‘‘ حضرت صاحب کے دماغ میں ایک بار پھر اسی طرح خیالات کا جھماکا کوندا جس طرح زخمی کتے کو پہلی نظر میں دیکھ کر کوندا تھا۔ واقعی کھانا لا کر دینے والا کتا تو کل والے کتے سے اچھا تھا۔ حضرت صاحب نے پہلی بار سوچا کہ میرے ورکرز کا نہ جانے کیا بنا ہو گا میں نے دنیا داری چھوڑی تو ان کی نوکریاں چھوٹ گئیں۔ اف خدایا! اس کے ساتھ ہی حضرت صاحب نے پھر سے اپنا کاروبار شروع کیا۔ ورکرز ان سے خوش وہ ورکرز سے مطمئن۔
آپ عوامی نمائندے ہیں۔ بیورو کریٹ یا بزنس مین‘ خدا نے آپ کو دولت ثروت اور سطوت سے نوازا ہے آپ سرکاری علاج اور بہت سی مراعات کے مستحق ہیں۔ ذرا سوچئے آپ کے وطن کے عام آدمی کی کیا حالت ہے؟ ان کیلئے ہسپتال سکول و مدارس اور دیگر اداے بنائیے۔ کسی غریب کی مدد کیجئے۔ کسی کی بیٹی کی شادی کا اہتمام کیجئے۔ ایسا کاروبار کیجئے جس سے منافع بھی ہو اور کئی لوگوں کی روٹی روزی کا بندوبست بھی۔ (ختم شد)
No comments:
Post a Comment