جمعرات ، 06 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان ـ
یوسف رضا گیلانی‘ آصف علی زرداری کے ایسے ہی وزیراعظم ہیں جیسے فضل الہٰی چودھری‘ ذوالفقار علی بھٹو کے صدر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فضل الہٰی کو صدارتی اختیارات کی جس خزاں گزیدہ شاخ پر بٹھایا وہ اسی کو بہاروں کی منزل سمجھتے رہے۔ اٹھارہویں ترمیم سے قبل وزیراعظم گیلانی کے پاس اتنے ہی اختیارات تھے جتنے مشرف کے وزرائے اعظم جمالی‘ شجاعت اور شوکت عزیز کے پاس، پھر اٹھارہویں ترمیم نے گیلانی کو اختیارات سے لاد دیا۔ وہ گیلانی جو بحیثیت سپیکر اپنے حلقے کے لوگوں کو چوکیدار چپڑاسی پٹواری اور سپاہی بھرتی کرا کے پھولے نہیں سماتے تھے ان کے پاس مسلح افواج کے سربراہوں بمعہ آرمی چیف اور گورنروں کی تقرری جیسے اختیارات آگئے تو اقتدار کے نشے سے چور زمین پر قدم نہ لگنا قدرتی امر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یا تو گیلانی صاحب اٹھارہویں ترمیم سے قبل خود کو بے اختیار نہیں سمجھتے تھے یا پھر ترمیم کے بعد خود کو بااختیار نہیں سمجھتے۔ ان کی وزارت عظمیٰ کی زیادہ سے زیادہ مدت سوا دو سال رہ گئی ہے۔ وہ خود کو لغاری کی سطح پر نہیں لے جانا چاہتے۔ ایوان صدر سے اختیارات وزیراعظم ہاؤس منتقل ہوئے ہیں۔ صدر زرداری مضبوطی‘ استحکام‘ طنطنے دبدبے اور اختیارات کے حوالے سے جس مقام پر تھے بطور چیئرمین پیپلز پارٹی اس میں سرمو کمی نہیں آئی۔ اقتدار اختیارات کا منبع آج بھی صدر زرداری ہیں۔ کچھ لوگ گیلانی صاحب کو وزیراعظم کا اصل روپ دھارنے پر اکساتے رہے۔ شاید ان کے دل میں بھی لغاری صاحب کی طرح بھٹو بننے کی امنگ اور ترنگ نے زور مارا ہو۔ زرداری صاحب نے ان کے اندر جوش مارتی شوخ ہواؤں کو بھانپ لیا۔ انہوں نے صرف ایک قدم پیچھے کھینچا کہ گیلانی صاحب خود کو دشت تنہائی میں کھڑے پایا۔ پھر حمایت کیلئے کبھی اس در‘ کبھی اس در‘ جو ان کو بااختیار وزیراعظم بننے کے مشورے دیتے تھے اب ان سے دامن بچاتے‘ آنکھیں چراتے اور گیلانی صاحب در اقدس پر زور سے دستک دیں تو مطالبات دہراتے نظر آتے ہیں۔ گیلانی صاحب نے زرداری صاحب کو لو کے تھپیڑوں سے بچانے کیلئے ہمیشہ خود کو آگے کیا۔ زرداری کے بیجے ہوئے ببول بھی گیلانی نے کاٹے‘ شریفوں پر طعن و تشنیع کے تیر زرداری صاحب نے چلائے مطلب براری کیلئے گیلانی کو بھجوا کر آمادہ الفت و حمایت کیا۔ گیلانی صاحب کو ادھر سے سننا پڑتیں ادھر سے بھی لیکن وہ کبیدہ خاطر کبھی نہیں ہوئے۔ اپنی انا کی پروا کی نہ عزت نفس کی۔ اب وہ پارلمینٹ میں اکثریت کھو چکے ہیں جس پر وہ پریشان‘ ان کی پارٹی شادمان ہے۔ جس وزیر سے پوچھو وہ تھوڑا مسکراتا ہے پھر استہزایہ اور مزاحیہ انداز میں کہہ دیتا ہے اپوزیشن عدم اعتماد لے آئے۔
وزیراعظم اپنے ہی یعنی حکومت کے مقرر کردہ آرمی چیف کے بارے میں کہتے رہتے ہیں حکومت کے آرمی چیف کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں زرداری نے بھی گیلانی کو کہہ دیا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ گیلانی اسلام آباد لاہور میں سیاست کی وادی خار زار میں المدد المدد پکارتے بھٹک رہے تھے۔ ان کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے۔ زرداری صاحب کراچی میں خوش گوار موسم انجوائے کرتے رہے۔ تمام پارٹیوں نے مل کر قومی اسمبلی میں حکومت کو بے بس کر دیا۔ اپوزیشن ارکان للکارتے‘ حکومتی جھک مارتے رہے۔ انہیں شاید ایسا ہی کرنے کو کہا گیا تھا۔ دس پندرہ جیالے مل کر آسمان سر پر اٹھا سکتے ہیں۔ اسمبلی میں تو سو سے زائد تھے۔ اپوزیشن نے اسے اپنی کامیابی گردان لیا۔ کہا گیا کہ گیلانی 4 جنوری کو تیل کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس لے لیں گے۔ نواز شریف نے تین دن کی مہلت اور 45 دن کا آزمائشی وقت دے دیا۔ جمہوریت کا ڈھول پیٹا گیا۔ اپوزیشن کے اہمیت کو مسلمہ قرار دیا گیا۔ باور کرایا گیا کہ اپوزیشن چاہے تو بہت کچھ کر سکتی ہے۔ حکومت کو پالیسی بدلنے پر مجبور بھی۔ گیلانی صاحب کو اپنی وزارت عظمیٰ سے غرض ہے۔ انہوں نے سلمان تاثیر کے قتل کو بھی اپنی سیاست کیلئے استعمال کیا۔ وہ اس قتل کو اپنے لئے وقتی ریلیف کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وعدے کے مطابق 4 جنوری کو تیل کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا اعلان کیوں نہ کیا گیا۔ وہ اپنے باس کی طرح وعدوں کے فنکار اور مکرنے کے شہکار ہیں۔ زرداری صاحب اپنی اہمیت جتلانا اور گیلانی صاحب کو ان کی اوقات یاد دلانا چاہتے تھے۔ دونوں کام انہوں نے خوش اسلوبی سے کر دئیے۔ گیلانی صاحب اگر زرداری کی خاطر کچے دھاگے سے بندھے درگاہ رائیونڈ پر دست بستہ حاضر ہو سکتے ہیں۔ تو زرداری کی بارگاہ میں سر جھکانے میں کیا امر مانع ہے۔ صرف ایک حاضری سے ان کے معاملات درست‘ صدر کے اشاروں پر ناچنے والے، وزیراعظم سے روٹھے اتحادیوں کے تحفظات دور ہو جائیں گے۔ پھر وہی‘ عوام دشمن‘ کرپشن زدہ‘ نفرت انگیز سیاست اور جمہوریت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کیلئے پٹڑی پر چڑھ جائے گی۔ شاید یہی سیاست اور جمہوریت ہمارا مقدر ہے۔
No comments:
Post a Comment