About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, January 25, 2011

شکم پروری


24-1-11
فضل حسین اعوان
کرائے کے بجلی گھر لگ رہے ہیں۔ کراچی میں ترکی کا شپ بندرگاہ پر لنگر انداز ہو کر بجلی کی پیداوار دے رہا ہے۔ گرمیوں کی نسبت سردی کے موسم میں بجلی کم استعمال ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بھی بجلی کی علانیہ سے زیادہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ کرائے کے بجلی گھروں سے 14 اور شپ سے 18 روپے یونٹ بجلی پڑے گی۔ حکومت نے یہ قیمتیں لاگو کر دیں تو اتنی مہنگی بجلی استعمال کون کرے گا؟ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ عام آدمی میں تو موجودہ قیمتیں برداشت کرنے کی بھی سکت نہیں ہے۔ پاور پلانٹس 5 سالہ کرائے پر حاصل کئے گئے ہیں۔ ان کے معاہدوں اور تنصیب میں شفافیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ہی پلانٹ کی دو جگہ تنصیب ظاہر کرکے اربوں روپے کی ادائیگی کر دی گئی۔ دو سال قبل دو کھرب روپے کے پلانٹ کرائے پر حاصل کئے گئے۔ نوید سنائی گئی کہ ان تنصیب سے بجلی کی قلت پوری ہو جائے گی۔ آپ 2 کھرب کے بجائے 20 کھرب کے پلانٹ خرید لائیں جب تک نیت مسائل حل کرنے کی نہیں ہو گی یہ بھی بجلی کی کمی پوری نہیں کر سکتے۔ ملکی اور عالمی مافیا مل کر انرجی کے وافر حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پانی سستی اور آسان ترین طریقے سے بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس ذریعے کو بروئے کار لایا جائے تو تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ اس سے تیل کی کھپت کم ہو جائے گی۔ جو کچھ حلقوں کو گوارہ نہیں۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی راہ میں یہی لوگ رکاوٹ ہیں۔ ہم سعودی عرب سے سستا تیل حاصل کرتے ہیں وہ بھی امریکی کمپنی آرامکو کے ذریعے پاکستان پہنچتا ہے۔ اگر تیل کی کھپت ہی نہ رہے گی تو ان کمپنیوں کا کیا بنے گا اور ان لوگوں کے بچوں کی روزی کیسے پوری ہو گی جنہوں نے اپنی قسمت ان بیرونی آقاو ¿ں کے کاروبار سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ خدا ہمیں محب وطن‘ عام آدمی کیلئے درد دل اور قوم و ملک کیلئے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھنے والے حکمران مرحمت فرمائے‘ کمشن مافیا طویل المیعاد منصوبوں کی بجائے‘ ڈنگ ٹپاو ¿ پالیسیاں بنانے والوں سے نجات دلائے تو انرجی کے بحران پر نہ صرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ ایران‘ ترکی اور چین کی طرح پاکستان کئی ممالک کو بجلی برآمد بھی کر سکتا ہے۔
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے بے شمار ذرائع ہیں۔ ان پر مختصراً نظر ڈالتے ہیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات بڑھا چڑھا کر بھی پیش کی جائیں تو 20 ہزار میگاواٹ سے بہت کم ہیں۔ سمندر‘ دریاو ¿ں‘ نہروں اور ڈیمز پانی سے ایک لاکھ میگاواٹ سے زائد ڈیڑھ روپے فی یونٹ لاگت سے پن بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اوسط 12 گھنٹے سورج کی روشنی دستیاب ہے۔ اگر اسے استعمال کیا جائے ایک روپے فی یونٹ سے بھی کم خرچ سے 6 لاکھ میگاواٹ سولر انرجی میسر ہو گی۔ پاکستان میں اب تک دریافت ہونے والے کوئلے کے ذخائر سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی 8 سو سال تک تین روپے یونٹ ملتی رہے گی۔ کوڑا کرکٹ جو ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کوڑے سے ایک لاکھ میگا واٹ بجلی اور وافر مقدار میں ڈیزل اور مٹی کا تیل حاصل ہو گا۔ اس کے علاوہ نیو کلیئر انرجی سے پچاس ہزار میگاواٹ شوگر ملوں کے پھوک سے ہزاروں واٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ … شوگر ملز مالکان عوامی اور قومی خدمت سے زیادہ منافع پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ گنے کا فضلہ بھی چینی کے بھاو ¿ فروخت کریں گے۔ زمین سے بھاپ کے ذریعے پن بجلی سے بھی سستی انرجی کا حصول ممکن ہے۔ اس پاور پراسس کے ذریعے 35 ہزار میگاواٹ فراہم ہو سکتی ہے۔ خدا نے ہمیں وسائل دئیے اور ماہرین بھی موجود ہیں۔ اس سے ہم خود فائدہ نہ اٹھائیں تو قدرت کا نہیں ہمارا اپنا قصور ہے۔ معاملات اس شعبہ کے کرتا دھرتاو ¿ں کی نااہلی اور نالائقی نہیں ان کی شکم پروری اور بدنیتی کے باعث ان کے سیاہ دل کی مانند کالا بھوت بن چکے ہیں۔

No comments:

Post a Comment