About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, January 30, 2011

منزلِ تذلیل کی طرف تعجیل


 اتوار ، 30 جنوری ، 2011

فضل حسین اعوان ـ 5 گھنٹے 1 منٹ پہلے شائع کی گئی
جلاوطنی، دیس نکالا، غریب الوطنی، غریب امیر، بادشاہ فقیر، کسی کیلئے بھی بہت بڑی سزا ہے۔ ایسی جلاوطنی انسان کو اندر سے کھوکھلا اور خاندان کو برباد کردیتی ہے جس کے خاتمے کا امکان اور نشان تک نہ ہو۔ جب دربدر ہونے کا سامان خود اپنے ہاتھوں، اعمال اور افعال سے کیا ہو تو پچھتاوا نسلوں تک منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ قدرت نے بڑے بڑوں کو عبرت کا نشان اور صاحبانِ دانش کیلئے عبرت انگیز داستان بنا دیا۔ شہنشاہِ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے اپنی پالیسیوں کے باعث اپنی عزت خود خاک میں ملائی۔ اپنا تاج سر سے کھینچ کر خود زمین پر دے مارا۔ اپنا چہرہ خود نوچ کر بدصورت و بدنما بنالیا۔ اس نے صاحبانِ جبہ و دستار اور ساغر و مینا کے پرستاروں کے درمیان لکیر کھینچ دی۔ پھر بادہ خواروں کو اپنے گرد جمع کرلیا تو وارثان منبر و محراب نے اربابِ طاﺅس و رباب پر برق بن کر تو گرنا تھا۔ وہ شہنشاہ کی طرف شعلہ بن کر لپکے اور طوفان بن کر جھپٹے تو رضا شاہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان تو بچا لے گیا لیکن اسکی عظمت کی قبا داغدار اور عزت و حرمت کی دستار تار تار ہوچکی تھی۔ بادشاہ سلامت مہکتے اور فصلِ گل سے لدے گلشن و گلستان کو چھوڑ کر اجڑے دیار کی طرف روانہ ہونے کیلئے جہاز کے پہلے زینے پر قدم رکھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ جہاز نے زمین سے آسمان کی بلندی کی اڑان پکڑی تو شہنشاہ اپنی سوچوں میں اوجِ ثریا سے زمین کی پستی پر اتر آیا۔ ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان ضرور سوچا ہوگا، کاش میں نے یہ کیا ہوتا، وہ نہ کیا ہوتا، لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ رضا شاہ پہلوی دربدر ہوئے۔ موت کا خوف لمحہ لمحہ دامن گیر رہا۔ 7 جولائی 1980ءکو مصر میں ایران کا بادشاہ لاوارثوں کی طرح ایک خیراتی ہسپتال میں مر گیا۔ آج مصر کے حسنی مبارک کو بھی شہنشاہِ ایران جیسے انجام کا سامنا ہے۔ بدبختی اور بدقسمتی آج بھی شہنشاہِ ایران کے خاندان کے تعاقب میں ہے۔ 2001ءکو انکی صاحبزادی 31 سالہ لیلیٰ پہلوی نے خودکشی کی اور چند روز قبل چھوٹے صاحبزادے علی رضا پہلوی نے بھی اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لی۔ ہمارے کارپردازانِ اقتدار، بادہ خوار میخوار خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں۔ ماضی سے سبق سیکھتے ہیں نہ زمان و مکان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ بے ہنگم اور بے ڈھنگے انداز میں جی حضوریوں اور واہ واہ کرنیوالوں کے ہجومِ بے سمت میں خود کو اسکا دلہا سمجھتے ہوئے منزلِ تذلیل کی طرف بڑی تعجیل سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ شہنشاہِ ایران اور اسکے خاندان کے انجام سے سبق سیکھنے کے بجائے وہی کام کئے جا رہے ہیں جو اسکی کی ذلت و رسوائی کا سبب بنا۔ پہلوی، تیونس کے بن علی اور حسنی مبارک جس ”مقام“ پر اپنی خباثتوں سے نصف اور ربع صدی میں پہنچے ہمارے صاحبانِ اقتدار اپنی ”ریاضتوں“ سے دو تین سال میں پہنچ جاتے ہیں۔ اپنے سیاستدانوں کے کردار کا جائزہ لیجئے۔ انہوں نے جتنا پڑھنا اور جو کچھ کرنا تھا کرلیا۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت کس نہج پر کررہے ہیں؟ ایک بھی سیاستدان کا نام بتائے جو اپنی اولاد کو سچا اور کھرا سیاستدان بنانے کیلئے اسکی تربیت کررہا ہو۔ کتنے کے بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی؟ معروف سیاستدانوں کی اولادیں، بیگمات اور بہو بیٹیاں تک قبضہ گروپ بنائے پھرتے ہیں، نوکریاں فروخت کررہے ہیں، کمیشن کھا رہے ہیں، پیسہ کما رہے ہیں، کچھ پہلے کا کمایا اڑا رہے اور دبا رہے ہیں۔ ایسے ہی تربیت یافتہ کل ملک و قوم کی تقدیر کے مالک ہونگے تو ان سے قوم کی قسمت سنوارنے اور ملک کو ترقی و خوشحالی کا آفتاب و مہتاب بنانے کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ بڑے سیاسی خاندانوں کو اور کتنی دولت چاہئے؟ کیا صرف دولت ہی چاہئے، عزت، وقار اور عظمت نہیں؟ اولاد کیلئے سیاست کو کاروبار نہ بنائیں۔ جن بچوں کو سیاست میں لانا ہے ان کیلئے کاروبار کو شجرِ ممنوعہ قرار دیں۔ انکی بہترین تربیت اور اعلیٰ تعلیم کا اہتمام کریں۔ یہی ان کیلئے بہتر، آپ کیلئے بہتر اور ملک و قوم کے مستقبل کیلئے بہتر ہے۔ اگر گنگا کا دھارا اور مروجہ سیاست کا پرنالہ یونہی بہتا رہا تو جلاوطنی، دیس نکالا اور غریب الوطنی مقدر ٹھہرے گی۔ شہنشاہِ ایران جیسا انجام آپکے تعاقب میں رہے گا اور بالآخر اپنی لپیٹ میں بھی لے لیگا۔

No comments:

Post a Comment