جمعۃالمبارک ، 28 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
نوکری کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرنل صاحب کی روٹین میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ شام کے وقت گاڑی لے کر نکلتے جہاں کہیں کسی مسافر کو بس سٹاپ یا ریلوے سٹیشن کے قریب ٹرانسپورٹ کا منتظر پاتے اسے گاڑی میں بٹھا کر منزل تک پہنچا دیتے۔ کرنل صاحب اس کو خدمتِ خلق کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کراچی کی آبادی آج کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم تھی۔ آج پاکستان کی آبادی سترہ کروڑ ہو چکی ہے۔ کم از کم ایک کروڑ کے قریب تو ملازمت پیشہ ہونگے۔ یہ سرکاری، پرائیویٹ اداروں یا چھوٹے موٹے کاروباروں کے ملازم صبح نوکری پر جانے کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں۔ کوئی سائیکل پر کوئی موٹر سائیکل اور کار پر، کوئی بس ویگن یا ٹرین پر، موٹر سائیکل اور کاروں پر جانے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ آپ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ تعداد 2 لاکھ ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ عموماً ایک موٹر سائیکل پر اور کار میں ایک ہی صاحب جا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بس سٹاپ پر مسافروں کا رش لگا ہوتا ہے۔ اگر آپ صرف ایک فرد کو لفٹ دے دیں تو گویا ملک میں کم از کم ڈیڑھ پونے دو لاکھ افراد کو بسوں اور ویگنوں میں دھکوں سے بچانے اور ان کو بروقت منزلِ مقصود تک پہنچانے کا اہتمام ہو گیا۔ آپ کا کچھ بگڑا بھی نہیں۔ لفٹ لینے والے کا کرایہ بھی بچ گیا۔ یہ مفت کی نیکی، انسانیت کی خدمت اور عظیم تر پاکستانیت ہے۔ آپ کے اس اقدام پر دوسرا شخص سراپا مشکور اور دعاگو ہو گا اور خود آپ طمانیت محسوس کریں گے۔ کسی کار والے دوست سے میں نے بات کی تو اس نے پوچھا آپ لفٹ دیتے ہیں؟ میں لاجواب ہو گیا۔ وہ کہنے لگا اس میں بہت رسک ہے آپ وقت پر اپنے گھر نہیں پہنچ سکتے نہ کام پر اور پھر یہ بھی خطرہ ہے کہ لفٹ لینے والا پستول دکھا کر نیچے اتار دے اور کار لیکر رفو چکر ہو جائے۔ اس لئے لفٹ دیتے ہوئے ’’بندہ کبندہ‘‘ دیکھ کر لیا کریں، بہتر ہے واقف کار کو لفٹ دیں۔
آٹھ نو سال قبل سرگودھا جانا ہوا، ہسپتال کے سامنے شہر جاتے ہوئے چوک میں گاڑی بند ہو گئی، صاحبزادے کو کہا کہ گاڑی سائیڈ پر کرنے کے لئے تھوڑا دھکا لگا دے، چھٹی جماعت کا لڑکا کیا دھکا لگا سکتا ہے۔ بہرحال وہ باہر نکلا پورا زور لگایا گاڑی ہلکی سی ہلی کہ اس دوران ایک بڑی گاڑی سے تین کلف لگے کپڑوں میں ملبوس قوی الجثہ افراد نکلے۔ ان کے لائن آف ایکشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ انہوں نے گاڑی کو زوردار دھکا لگا کر سٹارٹ کرا دیا اور شکریے کے الفاظ سنے بغیر چل دئیے۔ ان کے لئے آج بھی دل میں احترام کے جذبات ہیں۔
دو ہفتے قبل شدید سردی تھی۔ ایک رات رضائی کے ساتھ کمبل بھی اوڑھنا پڑا۔ لاہور کراچی اسلام آباد پشاور کوئٹہ فیصل آباد اور ایسے ہی بہت سے شہروں میں فٹ پاتھوں، ریلوے سٹیشن کے شیڈوں، لاری اڈے کی بند دکانوں کے برآمدوں میں رات کو لیٹے غربت کے مارے لوگوں کا خیال آیا تو سردی کی لہر ریڑھ کی ہڈی اور روح تک پہنچتی محسوس ہوئی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ ہمارے جیسے انسان ہیں۔ کوئی مسافر ہے تو کوئی مزدور، بہت سے ایسے خوددار جو گھر سے شاپر میں اچار یا مرچ لے کر آتے ہیں، دن کو مزدوری کی رات کو تندور سے دو روٹیاں خرید کر کھائیں اور جہاں جگہ ملی سو گئے۔ ہمارے ہاں بڑی بڑی این جی اوز ہیں، مذہبی اور سماجی تنظیمیں ہیں۔ ایسے بے بس، بے کس اور خوددار لوگوں کے لئے کم از کم رات کو سونے کا کوئی مناسب انتظام کیوں نہیں کر دیتے۔ مخیر حضرات بھی اس کار خیر میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ مہمان خانے نہ بنائیں کھلے شیڈ بنا دیں وہاں بیڈ کرسیاں میز رکھنے کی ضرورت نہیں، بنچ رکھ دیں تو بہتر، ویسے اس تکلف کی بھی ضرورت نہیں، چھت کے ساتھ صرف پانی اور باتھ رومز کا انتظام کر دیا جائے۔ حکومتی سطح پر اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے تو کیا کہنے۔ وزرائے اعلیٰ کے سیکرٹریٹ اور گورنر ہائوسز ایکڑوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ شہروں میں اتنی سرکاری زمین ہے کہ بااثر لوگ قبضے پہ قبضہ کئے چلے جا رہے ان میں سے کچھ حصہ عظیم تر انسانی فلاحی منصوبے کے لئے مختص کر دیا جائے۔
فضل حسین اعوان
نوکری کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرنل صاحب کی روٹین میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ شام کے وقت گاڑی لے کر نکلتے جہاں کہیں کسی مسافر کو بس سٹاپ یا ریلوے سٹیشن کے قریب ٹرانسپورٹ کا منتظر پاتے اسے گاڑی میں بٹھا کر منزل تک پہنچا دیتے۔ کرنل صاحب اس کو خدمتِ خلق کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کراچی کی آبادی آج کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم تھی۔ آج پاکستان کی آبادی سترہ کروڑ ہو چکی ہے۔ کم از کم ایک کروڑ کے قریب تو ملازمت پیشہ ہونگے۔ یہ سرکاری، پرائیویٹ اداروں یا چھوٹے موٹے کاروباروں کے ملازم صبح نوکری پر جانے کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں۔ کوئی سائیکل پر کوئی موٹر سائیکل اور کار پر، کوئی بس ویگن یا ٹرین پر، موٹر سائیکل اور کاروں پر جانے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ آپ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ تعداد 2 لاکھ ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ عموماً ایک موٹر سائیکل پر اور کار میں ایک ہی صاحب جا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بس سٹاپ پر مسافروں کا رش لگا ہوتا ہے۔ اگر آپ صرف ایک فرد کو لفٹ دے دیں تو گویا ملک میں کم از کم ڈیڑھ پونے دو لاکھ افراد کو بسوں اور ویگنوں میں دھکوں سے بچانے اور ان کو بروقت منزلِ مقصود تک پہنچانے کا اہتمام ہو گیا۔ آپ کا کچھ بگڑا بھی نہیں۔ لفٹ لینے والے کا کرایہ بھی بچ گیا۔ یہ مفت کی نیکی، انسانیت کی خدمت اور عظیم تر پاکستانیت ہے۔ آپ کے اس اقدام پر دوسرا شخص سراپا مشکور اور دعاگو ہو گا اور خود آپ طمانیت محسوس کریں گے۔ کسی کار والے دوست سے میں نے بات کی تو اس نے پوچھا آپ لفٹ دیتے ہیں؟ میں لاجواب ہو گیا۔ وہ کہنے لگا اس میں بہت رسک ہے آپ وقت پر اپنے گھر نہیں پہنچ سکتے نہ کام پر اور پھر یہ بھی خطرہ ہے کہ لفٹ لینے والا پستول دکھا کر نیچے اتار دے اور کار لیکر رفو چکر ہو جائے۔ اس لئے لفٹ دیتے ہوئے ’’بندہ کبندہ‘‘ دیکھ کر لیا کریں، بہتر ہے واقف کار کو لفٹ دیں۔
آٹھ نو سال قبل سرگودھا جانا ہوا، ہسپتال کے سامنے شہر جاتے ہوئے چوک میں گاڑی بند ہو گئی، صاحبزادے کو کہا کہ گاڑی سائیڈ پر کرنے کے لئے تھوڑا دھکا لگا دے، چھٹی جماعت کا لڑکا کیا دھکا لگا سکتا ہے۔ بہرحال وہ باہر نکلا پورا زور لگایا گاڑی ہلکی سی ہلی کہ اس دوران ایک بڑی گاڑی سے تین کلف لگے کپڑوں میں ملبوس قوی الجثہ افراد نکلے۔ ان کے لائن آف ایکشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ انہوں نے گاڑی کو زوردار دھکا لگا کر سٹارٹ کرا دیا اور شکریے کے الفاظ سنے بغیر چل دئیے۔ ان کے لئے آج بھی دل میں احترام کے جذبات ہیں۔
دو ہفتے قبل شدید سردی تھی۔ ایک رات رضائی کے ساتھ کمبل بھی اوڑھنا پڑا۔ لاہور کراچی اسلام آباد پشاور کوئٹہ فیصل آباد اور ایسے ہی بہت سے شہروں میں فٹ پاتھوں، ریلوے سٹیشن کے شیڈوں، لاری اڈے کی بند دکانوں کے برآمدوں میں رات کو لیٹے غربت کے مارے لوگوں کا خیال آیا تو سردی کی لہر ریڑھ کی ہڈی اور روح تک پہنچتی محسوس ہوئی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ ہمارے جیسے انسان ہیں۔ کوئی مسافر ہے تو کوئی مزدور، بہت سے ایسے خوددار جو گھر سے شاپر میں اچار یا مرچ لے کر آتے ہیں، دن کو مزدوری کی رات کو تندور سے دو روٹیاں خرید کر کھائیں اور جہاں جگہ ملی سو گئے۔ ہمارے ہاں بڑی بڑی این جی اوز ہیں، مذہبی اور سماجی تنظیمیں ہیں۔ ایسے بے بس، بے کس اور خوددار لوگوں کے لئے کم از کم رات کو سونے کا کوئی مناسب انتظام کیوں نہیں کر دیتے۔ مخیر حضرات بھی اس کار خیر میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ مہمان خانے نہ بنائیں کھلے شیڈ بنا دیں وہاں بیڈ کرسیاں میز رکھنے کی ضرورت نہیں، بنچ رکھ دیں تو بہتر، ویسے اس تکلف کی بھی ضرورت نہیں، چھت کے ساتھ صرف پانی اور باتھ رومز کا انتظام کر دیا جائے۔ حکومتی سطح پر اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے تو کیا کہنے۔ وزرائے اعلیٰ کے سیکرٹریٹ اور گورنر ہائوسز ایکڑوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ شہروں میں اتنی سرکاری زمین ہے کہ بااثر لوگ قبضے پہ قبضہ کئے چلے جا رہے ان میں سے کچھ حصہ عظیم تر انسانی فلاحی منصوبے کے لئے مختص کر دیا جائے۔
No comments:
Post a Comment