منگل ، 11 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
18 فروری 2007 کو بھی حسب معمول شام، صبح ہونے کے لئے ڈھلی تھی۔ دنیا میں رات کو سینکڑوں ٹرینیں مسافروں کو اپنی آغوش میں لئے رواں رہتی ہیں۔ دہلی سے لاہور آنیوالی سمجھوتہ ایکسپریس کے ہزار کے قریب مسافر بھی اپنے پیاروں سے ملنے کے خواب سجا کر برتھوں اور سیٹوں پر بڑی بے فکری سے سو رہے تھے یا اونگھ رہے تھے۔ گاڑی بھارتی فوج کی نگرانی میں اندھیروں کو چیرتے ہوئے ارض پاک کی طرف منزل پہ منزل مارتے چلی آ رہی تھی۔ چلتی ٹرین میں دو دھماکے ہوئے، ساتھ ہی آگ لگ گئی۔ موت نے کئی مسافروں کو آنکھ تک کھولنے کی مہلت بھی نہ دی۔ بہت سے بے بسی سے موت کو اپنی طرف بڑھتے دیکھنے پر مجبور تھے۔ ان کے لئے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا کر جان بچانے کا ایک موقع موجود تھا لیکن گاڑی کے محافظوں نے دروازے لاک کر دیے ہوئے تھے۔ اس سانحہ میں بچوں اور عورتوں سمیت 68 افراد موت کی لکیر پارکر گئے۔ ان میں زیادہ تر مسلمان اور پاکستانی، چند ایک ہندو تھے۔ رات دو بجے لوگوں نے جیسے تیسے دو بوگیوں میں موجود سڑی ہوئی لاشوں اور زخمیوں کو دروازے کھڑکیاں کاٹ کر نکالا۔ یہ دھماکے ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ نے کرنل پروہت سے مل کر کئے۔ بوگیوں میں ہندو بھی موجود تھے۔ لیکن ہندو انتہا پسندوں کے بوگیوں میں رکھے گئے بموں کو ہندو مسلم کی پہچان نہیں تھی۔ کرنل پروہت تو سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے کرانے پر پہلے ہی گرفتار ہو چکے ہیں۔ دو روز قبل پنڈت آسیم نند نے مجسٹریٹ کے سامنے سمجھوتہ ایکسپریس مالیگاؤں اور اجمیر دھماکوں کا اعتراف کیا ہے۔ پنڈت آسیم نند آر ایس ایس کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ہیں۔ وہ دھماکوں کے الزام میں ہی جیل میں تھے۔ کہتے ہیں دہشت گرد کا ضمیر ہوتا ہے نہ ایمان اور دھرم۔ بھارتی تفتیشی ادارے اقلیتوں، ان کی عبادت گاہوں اور املاک پر دہشت گردی کرنے والے ملزموں پر سختی نہیں کرتے۔ اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں کے حوالے سے معاملہ مختلف ہے۔ ان کو جھوٹے الزام میں ملوث کر کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پنڈت آسیم نند نے تشدد یا کسی خوف سے اعترافِ گناہ نہیں کیا، اس کے اندر ضمیر نام کی کوئی رمق موجود تھی، خود اس کا کہنا ہے ’’جیل میں بم دھماکوں کا ایک ملزم عبدالکلیم بھی موجود تھا جس پر جھوٹا الزام لگایا گیا اس پر تفتیشی ادارے انسانیت سوز تشدد کرتے تھے یہ نوجوان انسانی ہمدردی کے تحت میرا خیال رکھتا، اپنے گھر سے آیا کھانا مجھے کھلاتا، پانی پلاتا، اس کے حسنِ سلوک اور سچائی سے متاثر ہو کر میں نے اعتراف جرم کیا۔ مجھے معلوم ہے اس جرم کی سزا موت ہے، میں اس کے لئے تیار ہوں‘‘ پنڈت نے آر ایس ایس کے اندریش کمار اور تنظیم کے پرچارک سنیل جوشی کو بھی دہشت گردی اور تخریب کاری میں ملوث قرار دیا ہے۔ پنڈت آسیم نند کا اصل نام جتن چٹر جی ہے جس نے اپنے ضمیر کی آواز پر آر ایس ایس کو مسلمہ دہشت گرد تنظیم ثابت کر دیا ہے۔
آر ایس ایس کے کارکنوں کی تعداد تنظیم کی طرف سے کبھی ظاہر نہیں کی گئی تاہم بھارتی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندازوں کے مطابق ان کی تعداد 25 سے 60 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ بظاہر آر ایس ایس کا مقصد تعلیم و صحت جیسے فلاحی کاموں کا فروغ ہے لیکن اس کے اصل مقاصد مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے یا مسلمانوں کو مکانا ہے۔ یہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ساتھ مل کر مکتی باہنی کی طرز پر کارروائیاں بھی کرتی ہے۔
ممبئی دھماکوں میں پہلی گولی چلنے کے ساتھ ہی پاکستان پر بھارت نے الزام لگایا اور اقوام متحدہ میں معاملہ لے جا کر متعدد تنظیموں کو کالعدم قرار دلایا، حافظ محمد سعید اور بہت سے رہنماؤں کو گرفتار اور نظر بند کروا دیا حالانکہ ممبئی دھماکے بھارت کا اپنا رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔ اب آر ایس ایس کے رہنماؤں نے اپنی تنظیم کو خود دہشت گرد ثابت کر دیا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ آر ایس ایس پر پابندی لگوائی جائے، کالعدم قرار دلایا جائے، اس کی پوری قیادت اندر ہو اور جیلوں میں سڑتی رہے۔ یہ کام خالی ہلکی پھلکی بیان بازی سے نہیں عالمی سطح پر تہلکہ مچانے سے ہو گا۔ ہماری خوابیدہ حکومت بھی اقوام متحدہ سے رجوع کرے جس طرح بھارت نے ممبئی حملوں کے بعد کیا تھا۔ وزارت خارجہ کے حکام سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی بھی ہیں ان میں پاکستانیت نظر بھی آنی چاہیے۔ گرد نہیں طوفان بن کر اپنا کیس اٹھائیں جو ثابت شدہ بھی ہے اور مضبوط بھی۔
No comments:
Post a Comment