پیر ، 17 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
ظلم و ستم ڈھانے اور عوام کا صبر آزمانے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ لوگ جبر کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں تو خُدا کی مدد اور نصرت بھی ساتھ ہو جاتی ہے۔ پھر آمرانہ پالیسیوں کے پروردہ اور خود کو عقل کل سمجھنے والے حکمران ٹمٹماتے چراغ کی طرح ہوا کے معمولی جھونکے کی تاب بھی نہیں لا سکتے۔ ان کو اہلیت کے بجائے خوشامد اور خدمات کے برتے پر چنے گئے مشیر تو کیا بچائیں گے۔ امریکہ جیسے مربی، موالی، سرپرست اور پشت پناہ بھی سہارا نہیں دے سکتے۔ مارکوس، شہنشاہِ ایران، مشرف اور تازہ ترین تیونس کے صدر کی روشن مثالیں، سمجھنے والوں کے لئے عبرت کا سامان لئے ہوئے ہیں۔
تیونس نے 1956ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی۔ 1957ء میں حبیب بورقیبہ پہلے صدر چنے گئے۔ 1987ء میں زین العابدین نے پرامن بغاوت کے ذریعے بورقیبہ کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے قانون کو موم کی ناک بنا لیا۔ جس طرح چاہا اس کو بدلا، توڑا اور مروڑا۔ ایک کروڑ کی آبادی والا ملک کنگلا اور کنگال نہیں۔ 98 فیصد مسلمانوں پر مشتمل آبادی کے ملک کے ہر شہری کی سالانہ آمدنی 70 ہزار ڈالر ہے۔ اس کے مقابلے میں فی کس پاکستانی کی آمدنی صرف 1051 ڈالر ہے۔ تیونس کی سیاست میں عوامی اثر و نفوذ کم امریکی عمل دخل زیادہ ہے۔ 23 سال سے زین العابدین کی آر سی ڈی کی ملک میں اجارہ داری چلی آ رہی ہے۔ اپوزیشن کو تختہ مشق بنانا صدر زین العابدین کا وطیرہ تھا۔ میڈیا اندرونی ہو یا بیرونی حکومت کی دستبرد سے محفوظ نہ تھا۔ زین العابدین نے امریکہ کی پشت پناہی میں ماحول اس قدر ٹائٹ کر دیا تھا کہ لاوا پکتا رہا اسے کبھی نہ کبھی تو پھٹنا تھا۔ بالآخر زین کا بھی یوم حساب آ گیا۔ جس طرح ہر آمر کا آتا ہے۔ اس کے مشیر بھی سب اچھا کی رپورٹیں دیتے رہے۔ ملک میں مہنگائی کا عفریت عوام کو ڈس رہا تھا۔ مصاحبین اسے بھی صدر صاحب کی طرف سے عوام کے لئے تحفہ ثابت کر رہے تھے۔ سرکاری اداروں میں خواتین کے حجاب پر پابندی بھی نادر شاہی فرمان کے تحت لگائی گئی۔ صدر زین کے زوال کا آغاز دسمبر میں اس وقت شروع ہوا جب دارالحکومت تیونس سٹی میں پولیس نے 26 سالہ گریجوایٹ محمد بائو زیز کو لائسنس کے بغیر فروٹ فروخت کرنے سے روک دیا۔ نوجوان نے اپنے خاندان کی کفالت کے لئے جائز ذریعے سے کاروبار کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ ناکامی پر دلبرداشتہ ہو کر 17 دسمبر کو سرِبازار خود کو آگ لگا کر دنیا کے دکھوں سے جان چھُڑا لی۔ اس کے بعد مشتعل لوگ احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلے تو صدر نے پولیس کو سیدھا فائر کرنے کے احکامات جاری کر دئیے۔ تین ساڑھے تین ہفتوں میں پولیس نے 60 انسان موت کے گھاٹ اتار دئیے۔ اس پر صدر کی انسانیت جاگی نہ ان کے ساتھیوں کی۔ امریکہ نے اس غضب پر افسوس کیا نہ مذمت۔ حکومت کے لئے عوامی جذبات کے سامنے بند باندھنا ناممکن ہوا تو صدر صاحب نے حکومت توڑ دی۔ اس پر عوام مزید بھڑکے تو 14 جنوری کو صدر زین العابدین ملک سے فرار ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔ جب صدر زین فرار ہوئے ان کا جہاز ابھی سعودی عرب میں لینڈ بھی نہیں ہوا تھا کہ امریکہ نے پینترا بدلا، زین اس کے کام کا نہیں رہا تھا تو وائٹ ہائوس سے تیونس میں جاری سویلین پر تشدد کی مذمت کا بیان پڑھ کر سنا دیا گیا۔
تیونس کی موجودہ صورت حال اور صدر کا فرار ہمارے حکمرانوں کے لئے ایک بڑا سبق اور لمحہ فکریہ ہے۔ امریکہ کی سرپرستی کو دائمی چھتری سمجھ کر عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایت پر عوام کا عرصہ حیات تنگ کئے جانے کی بھی ایک حد ہے۔ شاید عوام کے صبر اور برداشت کی بھی انتہا ہو چکی ہے۔ اگر حکمرانوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو ان کا حال بھی تیونس کے صدر جیسا ہو سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment