12-1-11....فضل حسین اعوان
گورنر ملک امیر محمد خان کچھ سیاستدانوں کو جمالی خربوزہ قرار دیا کرتے تھے۔ جمال والا یعنی خوبصورت نظر آنے والا خربوزہ۔ اس کا مطلب پوچھا گیا تو وضاحت کی یہ وہ اپوزیشن کے رہنما تھے۔ جو اسمبلی میں حکومت کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرتے تھے لیکن احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ جو تقریر کرنا ہوتی رات کو گورنر ہاؤس جا کر خود کلیئر کرواتے تھے۔ ایسے کاموں کیلئے گورنر ہاؤس کا فرنٹ گیٹ نہیں بیک ڈور استعمال ہوتا تھا۔ اس دور کے جمالی خربوزوں کی اولادیں بڑے سیاستدانوں کے روپ میں آج بھی جمالی خربوزوں کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اپوزیشن کا چھوٹا لیڈر ہو یا بڑا۔ آخرکار گوشت پوست کا انسان ہے۔ اس کی بھی کچھ ضروریات ہیں۔ کاروبار ہیں۔ اولاد اور عزیز رشتہ دار ہیں۔ صحرا کا شجر بے ثمر بن کر تو 5 سال نہیں گزارے جا سکتے۔ زندگی کی درخشانی ویرانی میں کیوں ڈھلتی رہے۔ کچھ فرنٹ ڈور سے ضمیر بیچ کر رسوا‘ کچھ بیک ڈور سے مول لگوا کر پارسا ٹھہرتے ہیں۔ انسان کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ قسمت بدل سکتی ہے۔ ترقی کی انتہاؤں کو چھو سکتا ہے۔ ستاروں پہ کمند ڈال سکتا ہے۔ لیکن فطرت نہیں بدل سکتی۔ ہم عمر کے جس حصے میں ہیں سیاستدانوں کو دیکھ رہے ہیں۔ کبھی اقتدار کے اندر کبھی باہر‘ قسمت تو بہت سوں کی بدلتی دیکھی۔ فطرت کتنوں کی؟ وزیر مشیر نوکریاں بیچتے ہیں تو اوپر والے عہدے‘ کروڑوں اور اربوں روپے میں‘ پی ایچ ڈی کی اصل ڈگریاں تک بے کار‘ انڈر میٹرک قومی اداروں کے چیئرمین‘ جعلی ڈگری کا بھی تکلف نہیں۔ کوئی اقتدار میں ہے یا اپوزیشن میں‘ عوامی مسائل کا واویلا ضرور‘ حل کیلئے کوئی کوشش نہ خواہش۔ اپنے مفادات کو ترجیح‘ جے یو آئی اور ایم کیو ایم نے حکومت کا ساتھ چھوڑا تو زرداری صاحب تمام معاملات سے الگ تھلک ہو کر کراچی میں جا بیٹھے وزیراعظم حمایت کے لئے کبھی لاہور کبھی کراچی‘ کبھی اس کے پاس کبھی اس کے‘ سب نے بیک زبان تیل کی قیمتیں واپس لینے کیلئے کہا‘ عوامی مسائل حل کرنے پر زور دیا۔ ن لیگ نے ایجنڈا سامنے رکھتے ہوئے تین جمع 45 دن کی ڈیڈ لائن دیدی۔ گیلانی صاحب نے تیل کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس لے لیا۔ ن لیگ کے ایجنڈے پر ہاں کہہ دی۔ اس پر سب شانت‘ ایم کیو ایم ’’آنے والی‘‘ جگہ پر لوٹ آئی۔ دوسرے ساتھ چھوڑنے والے بھی ’’بوڑھ تلے‘‘ آ جائیں گے۔ ق لیگ تیل کی قیمتیں کم ہونے پر شاداں ن لیگ ہاں پر فرحاں‘ حکمرانوں کے خلوص میں کھوٹ‘ سچ میں جھوٹ‘ نیت میں فتور اور بدستور‘ قول میں فریب‘ فعل میں دھوکہ ہے۔ تیل کی قیمتیں کم ہونے سے ہر چیز کی قیمت میں کمی ہونی چاہئے تھی۔ ایسا ہونے کے بجائے بہت سی چیزیں مزید مہنگی کر دی گئیں۔ مائع گیس کی قیمت میں اضافہ ہوا‘ بجلی کے نرخ دو فیصد بڑھانے کا اعلان‘ کرایوں میں کمی ہوئی نہ روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں کم‘ الٹا سب سے بڑے صوبے میں غیر معینہ مدت کیلئے صنعتوں کو گیس کی سپلائی بند کر دی گئی۔ کہاں گئے صنعتوں کو ہفتے میں 5 دن گیس کی فراہمی کے وعدے؟ سی این جی سٹیشن ہفتے میں دو دن بند رکھنے کا شیڈول تھا اچانک اس میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ گھریلو صارفین پریشان اکثر علاقوں میں صرف دو گھنٹے گیس فراہم کی جاتی ہے۔ سی این جی سٹیشن بند‘ صنعتوں کی سپلائی منقطع پھر گیس کہاں جاتی ہے۔ سردیوں میں بجلی کی بے محابا لوڈشیڈنگ‘ سیاسی لیڈر شپ کو اس کا احساس کیوں نہیں؟
پیپلز پارٹی رنگ و نور اور روشنیاں پھیلانے کا عہد لے کر اور وعدے دے کر اقتدار میں آئی اس نے ہر آنگن میں خاک اور ہر دامن میں راکھ بھر دی۔ ہر سو تاریکیاں پھیلا دیں۔ اپوزیشن نے مل کر حکومت کو تیل کی قیمتیں واپس لینے پر مجبور کرکے ثابت کر دیا کہ وہ حکومت کا قبلہ درست کر سکتی ہے لیکن یہ خاموش ہے۔ کیا حکومت کو بحران سے نکالنے کیلئے اس پر زور دینا ایک ڈرامہ تھا؟ عوام کا ایک ایک لمحہ اذیت میں گزر رہا ہے۔ نواز شریف 45 دن انتظار کریں گے۔ ساتھ فرما دیا الٹی میٹم کا لفظ ان کی لغت کا حصہ نہیں۔ یعنی 45 دن کے بعد بھی حکومت حوصلہ نہ ہارے۔ وزیراعلیٰ بلتستان مہدی شاہ کے تجزیہ پر غور فرمائیے ’’ن لیگ کے 45 دن ختم ہونے میں 2 سال لگ سکتے ہیں۔‘‘ میاں محمد نواز شریف ان کے برادر خورد شہباز شریف وفاقی حکومت کی وعدہ خلافی پر سیخ پا ہیں کہ پنجاب کو ہفتے میں 5 دن گیس کی فراہمی پر قدغن لگا دی گئی ہے۔ گیلانی بحران سے نکل کر مطمئن‘ عوام بدستور اذیت میں ہیں اس پر اپوزیشن پرسکون کیوں؟ یہ جمالی خربوزوں سے بھی بڑھ گئے زوالی اور لا ابالی خربوزے ہو گئے۔
No comments:
Post a Comment