About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, December 31, 2010

اینٹ۔ پتھر۔ پھول

جمعۃالمبارک ، 31 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
حالات اور وقت میں تغیر و تبدل کے ساتھ ساتھ ترجیحات اور جذبات میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ادوار‘ زمانہ اور وقت بدلنے کے ساتھ دوامی نظریات بدلتے ہیں نہ اخلاقیات۔ ہمارے ہاں خوشامد اور غیبت معاشرے اور سیاسی کلچر کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے۔ جس سے مفاد وابستہ ہو اس کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے اور اس کی مزید خوشنودی اور اسے مائل بہ کرم کرنے کے لئے حریفوں کی برائی کی جاتی ہے۔ خوشامد، غیبت اور چغل خوری جیسے کبائر اپنی جگہ ‘کچھ لوگ واقعی اپنے لیڈر اور محسن کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں۔ اس پر جان تک نچھاور کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ اس کے فرمان پر طوفانوں سے ٹکرانے اور جان لڑانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں مروجہ سیاست میں اعلیٰ سطح پر منافقتیں اور مصلحتیں تو ہو سکتی ہیں کارکن عموماً ان خرافات سے مبرّا اور مُصفّا ہیں۔ وہ بَل فریب نہیں جانتے۔ جس کے ساتھ‘ اس کے جاں نثار و جانباز، گو اس جذبے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے لیکن یہ ایک ناپسندیدہ حقیقت ہے کہ سیاسی نظریات میں بعض اوقات اتنی شدت اور حدت آ جاتی ہے کہ کارکن حریف کی جان لینے اور اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سیاست میں برداشت، تحمل اور اخلاقی اقدار پر کاربند رہا جائے تو معاملات پٹڑی سے نہیں اترتے۔ نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک عزت کرو اور عزت کرائو بہترین اصول ہے۔ یہ سنہری قول ہمارے لئے رہنما اصول ہے کہ کسی کے جھوٹے خدا کو بھی جھوٹا نہ کہو، وہ آپ کے سچے خدا پر بہتان لگائے گا۔ نفرت، دشنام اور الزام کے پیام میں محبت و الفت، پتھر کے جواب میں پھول برسیں، ایسا کسی اور دنیا اور معاشرے میں ہو تو ہو، ہمارے نہیں۔ 
ہماری سیاست میں 1988ء سے 1999ء تک کا عرصہ نفرت انگیز اخلاق سوز اور شر آگیں ہے۔ اُس دور میں شرافت اور شرارت ہم پلہ بن گئے۔ پگڑیاں اچھالنے اور آنچل اڑانے کا چلن عام، عزت و احترام بے نام ہو کر رہ گیا تھا پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو دو بار اقتدار میں آئیں، کوئی ایک بھی اپنی مدت مکمل نہ کر سکی۔ ایم کیو ایم کبھی اِس کبھی اُس در بھٹکتی رہی۔ گزشتہ روز کی خرافات اور بکواسات نے ایک بار پھر اَخلاقِیّت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ بات مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان ہلکی پھلکی موسیقی سے شروع ہوئی، الطاف حسین نے لاہور میں ساز بجانے کا اعلان کیا ن لیگ کا جواب آں غزل آنا ہمارے معاشرتی کلچر کا یقینی تقاضا تھا۔ بات مناظرے کے اعلانات اور جوابی بیانات سے ہوتی ہوئی سوتنوں کے سے طعنوں کے ساتھ بہت آگے چلی گئی۔ پھر چودھری نثار علی خان قومی اسمبلی کے اندر برسے تو حیدر عباس اور وسیم اختر اسمبلی کے باہر گرجے۔ ایک دوسرے کی ایسی کی تیسی پھیر دی۔ یہ بے ہودہ، اخلاق باختہ، لچرپن فحش گوئی، بے شرمی، بے حیائی اور بدبو سے پرداختہ سخن طرازی کا مقابلہ و مناظرہ تھا۔ جو کچھ ان حضرات نے آن ایئر کہا، کیا یہ سب اپنے گھر میں بہنوں، بیٹیوں اور مائوں کی موجودگی میں دہرا سکتے ہیں؟ بدزبانی سے حیدر عباس و وسیم اختر کا کچھ بگڑا نہ بدکلامی سے چودھری نثار علی کا کچھ گیا۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کی اعلیٰ قیادت کو رگیدا اور رگڑا گیا۔ وقتی طور پر فائر بندی ہو چکی ہے تاہم بات بڑھی تو بھی ٹارگٹ نوازشریف، شہباز شریف اور الطاف حسین ہونگے۔ نفرتیں بڑھیں گی انتقام کی چنگاریاں شعلہ بار ہونگی۔ کارکن ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونگے۔ ملکی سیاست میں جوڑ توڑ کی کھچڑی پک رہی ہے یا ایک پلاننگ کے تحت روٹھنے منانے اور طوفان اُٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ الگ معاملہ ہے تاہم نوازشریف اور الطاف حسین اعلیٰ ظرفی، برداشت اور تحمل سے کام لیں۔ اپنے ساتھیوں کو گالم گلوچ سے روکیں۔ اپنے ساتھیوں کو آگ اگلنے سے روکنے کا مطلب آپ نے اپنے خلاف زہر افشاں توپیں خاموش کر دیں۔ کل کا مقابلہ سخنوری اپنے اپنے انداز میں دونوں دھڑوں نے جیت لیا۔ مان گئے دونوں کو گرجنا بھی آتا ہے برسنا بھی، تڑپنا بھی اور تڑپانا بھی۔ اینٹ کا جواب پتھر سے تو سب دیتے ہیں۔ کبھی سنگ باری کے بجائے پھول بھی تو آزما اور بھجوا کر دیکھئے۔


No comments:

Post a Comment