About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, December 29, 2010

معاشرہ سیاسی زعما کے کردار کا عکاس

 بدھ ، 29 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان
ہمارے لئے سیاست میں قائداعظم کی شخصیت رول ماڈل ہے۔ انہوں نے انگریزوں کی جانبداری اور ہندو انتہا پسندوں کے تعصب کے باوجود اصولوں اور قوائد و ضوابط پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ آج ہم پاکستانیوں کے لئے سیاسی حالات اُس دور کی نسبت کئی گُنا سازگار ہیں… 1946ء میں کلکتہ مسلم چیمبر آف کامرس کی ایک نشست پر مسٹر اصفہانی بطور مسلم لیگی امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو رہے تھے۔ خلاف توقع ان کے مقابل ایک امیدوار آ گئے۔ اس سے مسلم لیگی حلقوں میں بے چینی محسوس ہونے لگی۔ ایک شام عبدالرحمن صدیقی نے اصفہانی صاحب کو خوشخبری سنائی کہ مخالف امیدوار کو زرضمانت اڑھائی سو روپے ادائیگی پر مقابلے سے دستبرداری کے لئے قائل کر لیا ہے۔ قریب قائداعظم بیٹھے تھے انہوں نے یہ سب سنا تو خفا ہوئے۔ قائداعظم نے زرضمانت اڑھائی سو کو بھی رشوت قرار دیا اور فرمایا کہ ہمیں یہ منظور نہیں۔ اس موقع پر قائداعظم نے اصفہانی صاحب سے جو فرمایا ہمارے لئے رہنما اصول اور مشعلِ راہ ہے۔ ’’میرے عزیز یاد رکھو پبلک زندگی میں، اخلاقیات اور دیانت کی اہمیت پرائیویٹ زندگی سے بھی زیادہ اہم ہے۔ پرائیویٹ زندگی میں بددیانتی سے کسی ایک شخص کو نقصان پہنچتا ہے لیکن پبلک زندگی میں لاتعداد لوگ مجروح ہو جاتے ہیں اور ہزارہا ایسے لوگ بے راہرو ہو جاتے ہیں جن پر آپکا اعتماد ہوتا ہے‘‘۔
آج ہمیں اپنے عوامی نمائندوں اور ہر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کردار کا گہرائی سے جائزہ لینے اور مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں محض سرسری نگاہ ڈالیں تو ان کا ظاہر باطن شیشے کے گلاس میں ڈالے گئے پانی کی طرح شفاف نظر آتا ہے۔ کوئی ایک بھی نہیں جو قائداعظم کے سیاست میں متعین کردہ اصولوں پر پورا اترتا ہو۔ اکثر پارٹیوں کے قائدین پر لوٹ مار، کرپشن بددیانتی اور بے ایمانی ثابت ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی شمائلہ رانا سے کریڈٹ کارڈز کی چوری پر استعفٰی لیا گیا اب وہ اپنی بے گناہی اور پیپلز پارٹی کی طرف سے ساڑھے آٹھ کروڑ کی پیشکش کے دعوے کے ساتھ میڈیا کے آسمان پر طلوع ہوئی ہیں۔ یونیفکیشن گروپ کی تشکیل اور اس میں شامل سیاسی یتیموں اور مستحقین کی دادرسی کا اندازہ مسلم لیگ ق کی ایم پی اے محترمہ آمنہ الفت کی جانب سے بے نقاب کی گئی حقیقت، 6 کروڑ کی پیشکش کو ٹھکرانے سے کیا جا سکتا ہے۔ چھانگا مانگا، مری اور سوات میں برضا و رغبت یرغمال بننے والے عوامی نمائندوں کی کہانیاں دو عشرے گزرنے کے باوجود ذہنوں میں تازہ ہیں۔ ایک اصولوں کی سیاست کرنے کی دعویدار پارٹی کے سربراہ کو طالبان کی حمایت پر جیل بھیجا گیا تو انہوں نے طالبان کے خلاف آرٹیکل لکھ کر جان چھڑائی۔ حضرت مولانا کی سیاست کے کیا کہنے! ایک وزیر کی برطرفی پر حکومت سے الگ ہوئے۔ دن میں کئی بار ورد فرماتے یہ حتمی فیصلہ ہے۔ واپسی کا سرے سے امکان نہیں۔ اب شاید حتمی فیصلے پر پچھتا رہے ہیں۔ سندیسہ دیا ہے کہ ان کی بات، مطالبے یا ترجیحات تسلیم کر لی جائیں تو حکومت میں شامل ہو جائیں گے۔ اب لگتا ہے جس حکومت سے علیحدگی کے لئے منٹ مارا تھا زرداری گیلانی کا بندہ درگاہ پر نہ بھی آیا تو ایک فون کال پر بارگاہ میں حاضر ہو جائیں گے۔ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ حالت مچھلی بے آب کی سی ہونے لگے گی پھر کچے دھاگے سے بندھے سرکار چلے آئیں گے۔ سیاست کا کوئی اصول ہوتا ہے، وقار ہوتا ہے تقدس ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کی بے اصولیوں سے سیاست کی مٹی پلید ہو چکی ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ فارن بنک اکائونٹس بیرونِ ممالک جائیدادوں، کاروباروں اور محلات کی تعمیر کی کہانیاں عام ہیں۔ مال بنانے اور اپنی اولادوں کے سنہری مستقبل کی خاطر قوم و ملک کو عملی طور پر اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ایک سال میں جائز مراعات کی صورت میں 3 کروڑ 20 لاکھ وصول کرنے والے عوامی نمائندوں کی بدستور ’’نیت ماڑی‘‘ ہے۔ ایسے کچھ وزیر اور مشیر محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی میں شرکت کیلئے گئے تو لاہور سے سکھر تک ’’خیراتی جہاز‘‘ میں سفر کیا۔ راجہ ریاض اور متعدد ساتھی نے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے جہاز میں ’’خدا واسطے‘‘ موہنجودڑو تک گئے۔ یہ قائداعظم کا پاکستان ہے۔ جس میں لوٹ مار کلچر پروان چڑھ چکا ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا لُٹو جی تے پھُٹو جی۔ اب اصول بن گیا ہے۔ لُٹو جی تے لُٹو جی بار بار لُٹو جی‘ لوٹ کے بھی نہ پھُٹو جی۔ یہ ہے ہمارے قائدین اور اکابرین کی پبلک لائف! آج اگر لاتعداد لوگ بے راہرو ہوئے ہیں۔ ہر ادارے میں چپڑاسی سے ڈی جی اور چیئرمین تک کرپشن سے لتھڑا اور معاشرہ بگڑا ہوا ہے تو یہ ہمارے سیاسی زعما کے کردار کا عکاس ہے۔


No comments:

Post a Comment