15-12-10
فضل حسین اعوان ـ 20 گھنٹے 37 منٹ پہلے شائع کی گئی
پاکستان وسائل اور پاکستانی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ وسائل مثبت سوچ اور دیانتداری سے بروئے کار لائے جائیں‘ صلاحیتوں کا راست سمت میں استعمال کیا جائے تو پاکستان ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی صف میں جگہ بنا سکتا ہے۔ جب ہم اپنے بل بوتے پر‘ نہ صرف کسی بیرونی امداد کے بغیر بلکہ دنیا کے چودھریوں اور تھانیداروں کی بھرپور مخالفت کے باوجود ایٹم بنا سکتے ہیں تو ایٹم بم بنانے سے زیادہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آج دنیا اوج ثریا ہم پتھر کے دور کی طرف رواں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وسائل کا مثبت استعمال نہیں ہوتا‘ قوم کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے۔ بے پایاں وسائل کے باوجود مسائل میں گھرے رہنے کی تمام تر ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے جن کی وسائل پر دسترس ہے۔
آج ہمیں انرجی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بجلی اور گیس کی ضرورت کے مطابق فراہمی نہ ہونے کے باعث بہت سے کاروبار ٹھپ ہوئے۔ جس سے کاروباری طبقہ شدید متاثر ہے اسی کے سبب بیروزگاری اور مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔ دونوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ بدامنی بھی کافی حد تک اسی کے سبب ہے۔ سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی گیس اور گرمیوں کے شروع ہوتے ہی بجلی غائب ہونے لگتی ہے۔ آج کل تو گرمیوں اور سردیوں کا فرق بھی مٹ گیا دونوں ہر سیزن اور موسم میں غائب‘ نام لوڈشیڈنگ کا دیا گیا ہے جس کا کوئی شیڈول نہیں۔ صدر اور وزیراعظم دوسرے ممالک جا کر اور دوسرے ممالک کے حکام کو پاکستان بلا کر ان سے ایکسپورٹ کے معاہدے کرتے ہیں۔ ان بھلے لوگوں سے کوئی پوچھے کہ آپ کیا مٹی کے برتن ایکسپورٹ کریں گے؟ انڈسٹری انرجی کی کمی کے باعث بند پڑی ہے۔ کل تک پنجاب میں صنعتوں کی ہفتے میں تین دن گیس بند رہتی تھی جس پر صنعتکار اور مزدور احتجاج‘ اعتراض‘ واویلا اور شور شرابہ کر رہے تھے کہ حکومت کی طرف پورا ہفتہ گیس بند کرنے کا اعلان کرکے اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ نہ ملے گیس نہ رہے زندگی‘ شور شرابے کا اچھا علاج سوچا۔ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ گیس کے بجائے تیل استعمال کیا جائے۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ گیس کی سپلائی عارضی طور پر بند کی گئی ہے۔ کینسر زدہ نیت اور یرقان آلود ذہنیت رکھنے والوںکو کوئی بتائے کہ جو آلات اور مشینری گیس سے چلتی وہ تیل اور بجلی پرنہیں چل سکتی۔ چھوٹی سی مثال گھروں میں چلنے والے گیس کے چولہے ہیں۔ یہ چولہے تیل سے جل سکتے ہیں نہ بجلی پر چل سکتے ہیں۔ متبادل کے طور پر سٹوو یا ہیٹر لگانا پڑے گا۔ صنعتوں میں جو سسٹم گیس پر ہے تیل پر لانے کیلئے کئی دن چاہئیں۔ جب تک سسٹم تبدیل ہو تو کوئی بعید نہیں کہ گیس کی عارضی بندش ختم کر دی جائے اور ہو سکتا دماغ کے بجائے معدے سے سوچنے والوں کی اعلیٰ حکمت عملی سے تیل کی قلت مسلط ہو چکی ہو۔ جن کے قبضہ میں وسائل ہیں ان کی پلاننگ اور منصوبہ بندی سے یہ بھی ہوا کہ سی این جی بند اور پٹرول بھی نہیں مل رہا۔ لوگ گاڑیوں کو دھکے لگاتے رہتے ہیں۔ سی این جی سٹیشنوں کی بندش کا شیڈول ساون بھادوں کی برسات کی طرح بدلتا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس کے کرتا دھرتاؤں کو رات بارہ ایک بجے بھی کوئی خیال آتا ہے اور یاد ستاتی ہے تو اسی وقت اگلے دن سی این جی سٹیشن بند کرنے کا شیڈول جاری فرما دیا جاتا ہے۔ کوئی اخبار میں خبر نہ ٹی وی چینلز پر اطلاع۔ گاڑی اور رکشے والے کو سٹیشن کے گرد کھڑی رکاوٹوں سے دن بھر کی خجل خواری کا نوٹس ملتا ہے… پاکستان میں بلا مبالغہ روزانہ اخبارات جرائد ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر اربوں روپے کے اشتہارات چلتے ہیں جس میں زیادہ تر اشتہاری پارٹیاں اپنی مصنوعات فروخت کیلئے بڑے دلکش انداز میں پیش کرتی ہیں۔ مسابقتی دور میں دوسروں سے بڑھ کر پیشکش ہوتی ہے۔ زیادہ خریداری پر رعایت بھی‘ جو کچھ یہ فروخت کرتے ہیں ان کی کبھی قلت نہیں ہوتی۔ ملک میں اگر قلت ہوتی ہے تو ان اشیاء کی جن پر حکومت کا کنٹرول ہے۔ آٹا‘ چینی‘ گھی‘ گیس اور بجلی وغیرہ۔ گیس اور بجلی والے بھی اپنی مشہوری دیتے ہیں لیکن کم استعمال کرنے کی۔ جو زیادہ استعمال کرے اس پر جرمانہ ‘ فی یونٹ 200 فیصد تک اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ گیس اور بجلی جہاں سے بھی آئے ضرورت کے مطابق فراہمی حکومت کا فرض ہے گیس اور بجلی پیدا کرنے کے ذرائع لامحدود ہیں۔ نیت صاف ہو تو سب کچھ ممکن ہے ایک طرف نیت صاف نہیں دوسری طرف جن کا کھاتے ہیں ان کا ڈر۔ ایران ہمسایہ ہے اس کی گیس و بجلی کی فراہمی کی پیشکش پر غور ترک کر دیا ترکمانستان سے افغانستان کے راستے گیس پاکستان آئے گی اور پاکستان سے بھارت جائے گی۔ افغان حکمرانوں کی طرف سے پاکستان کیلئے طالبان دور کے سوا کبھی خیر کی خبر نہیں آئی‘ گیس خیر سے آجائے تو بڑی بات ہے۔ پاکستان کے اندر سے بھارت کو گیس کی سپلائی کیلئے بچھائی گئی لائن سلامت رہے تو اس سے بھی بڑی بات۔ کل امریکی فوج کے منصوبے ٹھپ اورکرزئی صاحب کھپ گئے تو گیس منصوبے کا کیا بنے گا؟ اس پر دھیان نہیں۔ امریکہ نے سدا افغانستان میں نہیں رہنا ایران قیامت تک پاکستان کا ہمسایہ رہے گا۔ ہمارے حکمرانوں کو اس ناقابل تردید حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے جب تک اپنے وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جاتا۔ بجلی و گیس کے حصول کیلئے ایران کی پیشکش سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ایران کی پیشکش سے اگر فائدہ اٹھایا جاتا ہے تو گیس اور بجلی کی جلد دستیابی ممکن ہے۔ ایران کی سائیڈ پر انتظامات مکمل ہیں ہماری طرف سے ہی دیر ہو رہی ہے۔ اگر ہمارے راجے مہاراجے نیک نیتی کے ساتھ ایران کے خلوص کا جواب خلوص سے دیں تو بھی بجلی اور گیس ہوا کے دوش پر نہیں پہنچ جائے گی۔ کچھ تو عرصہ لگے گا۔ اس عرصہ کیلئے ضروری ہے کہ گیس کی فراہمی کی ترجیحات مقرر کی جائیں۔ پہلی ترجیح انڈسٹری ہونی چاہئے۔ ڈومیسٹک لوڈشیڈنگ کا آغاز وزیراعظم ہاؤس ایوان صدر‘ گیس کے وزیر ایم ڈی اور ان کے نائبین کے گھروں سے ہونا چاہئے۔ ایسا ہو تو یقیناً حکام کے دماغ درست نیت صاف اور گیس کی فراہمی کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کی راہ ہموار ہو گی۔ پھر سردیوں میں قوم کو رلانے والے گرمیوں میں ٹھنڈے اے سی والے کمرے میں سونے کے بجائے دھرتی کا سینہ چیر کر ضرورت کے مطابق گیس نکالنے کی اپنی سی کوشش کریں گے۔
No comments:
Post a Comment