About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, December 25, 2010

کتے قافلوں کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتے

26-12-10
فضل حسین اعوان
نگریز آزادی ہند پر تو تیار تھا تقسیمِ ہند پر مائل نہیں تھا۔ قائداعظمؒ نے اپنی فہم و فراست سیاسی سوجھ بوجھ اور دانشمندی سے مسلمانوں کو انگریز کی غلامی سے چھٹکارا دلا کر ہندو کی غلامی میں جانے سے بچایا۔ انتہا پسند ہندو مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام لینا چاہتا تھا۔ حضرت قائداعظم نے انتقامی ذہن رکھنے والے ہندو کے تمام منصوبے مسلمانوں کے لئے آزاد وطن حاصل کر کے خاک میں ملا دئیے۔ پیکرِ شر ہندوﺅں نے پاکستان کے قیام کو دل سے تسلیم نہ کیا۔ وہ پاکستان کے خاتمے کے لئے سازشی جال پھیلاتا اور ناپاک منصوبے بناتا رہا۔ بالآخر 1971ءمیں پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس سے پہلے وہ کشمیر حیدرآباد دکن، مناوادر اور جوناگڑھ پر غاصبانہ قبضہ کر چکا تھا۔ بعد ازاں سمندری حدود اور سیاچن کے وسیع تر علاقے متنازعہ بنا دئیے۔ ہندو نے نسل در نسل دماغوں میں مسلمانوں سے انتقام کا بارود بھرا۔ پاکستان ایٹمی طاقت بنا تو اس میں واضح جارحیت کی ہمت نہ رہی۔ یوں تو بھارت بھی ایٹمی قوت ہے لیکن بقول مجید نظامی معیار کے حوالے سے اس کا ایٹمی اسلحہ پاکستان کے گھوڑوں کے مقابلے میں کھوتوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.... اسی لئے پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت امریکہ اور اسرائیل کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ اسرائیل امریکہ اور مغرب پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل نے پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا پروگرام بنایا۔ امریکہ پاکستان پر ایٹمی پروگرام بند اور کم کرنے پر دباﺅ ڈالتا رہا ہے۔ اس نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ دھمکیاں اور لالچ دونوں حربے آزمائے۔ نوازشریف نے قوم کو اپنی پشت پر پایا مجید نظامی نے حوصلہ دیا تو نوازشریف نے دھماکے کر دئیے۔ ایٹمی طاقت بنا تو پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا یہی مغرب اور خصوصی طور پر بھارت، امریکہ اور اسرائیل کو گوارہ نہیں۔ اب ایٹم بم ہمارا محافظ بن چکا ہے تاہم ہنود یہود و نصاریٰ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کنٹرول حاصل کر کے اس کے دفاع میں نقب لگانا چاہتے ہیں۔ امریکہ کی ڈکٹیشن پر اپنے ہی لوگوں کو مروانے والی قیادت سے کچھ بعید نہیں کہ ایٹم بم کو بھی بیچ کھائے۔ اس لئے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے ایٹمی پروگرام کی حفاظت ہر صورت لازم ہے۔ بندوق کی آپ حفاظت کریں گے تو وہ آپ کی حفاظت کرے گی۔ بندوق کو باہر گیٹ پر لٹکا کر کہا جائے کہ یہ آپ کی محافظ ہے تو اس سے بڑا احمقانہ پن نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہی پاگل پن پر مبنی بہت سی باتیں ہمارے سابق اور ایک معاصر کے پیدل کالم نگار نے اپنے 23 دسمبر 2010ءکے کالم میں کی ہیں۔ آپ کو نظریہ پاکستان سے خدا واسطے کا ویر ہے۔ آپ کی اپنی کچھ بھی رائے ہو سکتی ہے۔ کسی بات اور معاملے پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ تاہم اختلاف اور آزادی اظہار کے نام پر بدزبانی، لچر پن اور گھٹیا جملے بازی، کوڑھ مغزی اور گندی ذہنیت کا ثبوت ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے ’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘۔ یہ فرمان محترم کی کرتوتوں اور حرکتوں کے باعث ان پر پورا اترتا ہے۔ مجید نظامی صاحب نے ان کو نوائے وقت میں لکھنے کا موقع دیا تو وہ بڑے آدمی بن گئے۔ اچھے دام لگے تو کہیں اور چلے گئے۔ نوائے وقت میں رہے تو نظریہ پاکستان سہانا اور تابناک لگتا تھا۔ ادارہ بدلنے سے سوچ بدلی، نظریات بدلے، بس چلتا تو باپ بھی بدل لیتے۔ اپنے والد صاحب ان کو پسند نہیں تھے۔ ان کی وفات پر 20 مارچ 1996ءکو نوائے وقت میں چشمِ نگران کے عنوان سے کالم لکھا جس میں فرمایا ”ان کے اور میرے درمیان باپ اور بیٹے کا رشتہ بہت وحشی قسم کا تھا۔ وہ مجھے جتنے اچھے لگتے اتنے ہی برے“
محترم شراب کے رسیا ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک حالت یہ ہوتی تھی کہ ملاقاتیوں کے لئے گھر میں دستیاب نہ آفس میں موجود، تلاش بسیار کے بعد کسی گندی نالی میں نیم جان اور خارش زدہ جانور کی صورت میں پائے جاتے تھے۔ جناب مجید نظامی نے ناجی صاحب کو جو کچھ بھی وہ لکھنا چاہتے تھے اس کا موقع دیکر ترقی کی معراج پر پہنچایا۔ اس کے بدلے میں یہ صاحب نظامی صاحب کے خلاف لکھتے رہتے ہیں۔ مذکورہ کالم میں تو یاوہ گوئی اور محسن کشی کی انتہا کرتے ہوئے ثابت کر دیا کہ وہ ذہنی طور پر بدستور اس گندگی کے کیڑے ہیں جس میں وہ ٹن اور مدہوشی کی حالت میں پائے جاتے تھے۔ ان کی بے غیرتی بے ضمیری اور محسن کشی تو مسلمہ ہے، لیکن جن لوگوں نے وہ کالم چھاپا اور جن کے اخبار میں چھاپا گیا ان کو بھی دیکھ لینا چاہئے تھا کہ اس میں کیا لکھا اور کس کے بارے میں لکھا ہے۔ 
ایک طرف ایک ادارے کی جانب سے بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرکے دوستانہ تعلقات کا پرچار ہو رہا ہے۔ ہندو کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ امن کی آشا کے گیت گائے جا رہے ہیں۔ ملک میں فحاشی کا اہتمام کیا جا رہا ہے دوسری طرف نوائے وقت قائدؒ کی متعین کردہ راہوں کو روشن کر رہا ہے۔ دوقومی نظریے کی آبیاری کی جا رہی ہے۔ نظامی صاحب کے دل کے تین بائی پاس ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود جواں ہمت ہیں۔ اپنے ادارے سے زیادہ وقت قائدؒ اور اقبالؒ کے فکر و فلسفے کی ترویج کے لئے دیتے ہیں۔ وہ اس قافلے کے رہبر و رہنما اور سرخیل ہیں جو قوم کو قائدؒ اور اقبالؒ کی متعین کردہ منزل کی طرف لے جا رہا ہے۔ وہ نئی نسل تک اقبال و قائد کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں یہ قافلہ دم بدم قدم قدم سبک خیز، سبک رو اور تیزم گام ہے۔ اس کے سامنے کچھ سدِراہ اور سدِ سکندری نہیں ہو سکتا ہے۔ کتے بھونکتے رہتے ہیں۔ قافلے چلتے رہتے ہیں آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ کتے ان کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی ایک کتے کی بھونک قافلے کے پاﺅں کی آوازوں میں ہی دب کر رہ جاتی ہے۔ 

No comments:

Post a Comment