About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, December 5, 2010

کشمیر پر کمٹمنٹ؟


اتوار ، 05 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
میاں منظور وٹو امور کشمیر کے وفاقی وزیر اور مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ ”سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی“ یوں تو یہ ہر پارٹی کا ماٹو ہے تاہم وٹو صاحب اور حضرت مولانا اس مقولے یا محاورے کی درخشاں مثال ہیں۔ ان کی سیاست میں کمٹمنٹ کیا ہے؟ اس سے معمولی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے پوری طرح آگاہ ہیں۔ ایک کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین دوسرے کو وزیر امور کشمیر بنا دیا گیا۔ یہ آصف علی زرداری کی ”ذہانت کی معراج“ ہے۔ 
وزیر امور کشمیر نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کشمیر سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ بھارت کو مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرنا ہوں گی“۔ وٹو صاحب کا بیان پاکستانیوں اور کشمیریوں کی امنگوں اور جذبات کا آئینہ دار ہے۔ سوال یہ ہے کہ جنگ چھیڑے گا کون؟ کیا وہ لوگ کشمیر کی خاطر جنگ چھیڑیں گے جن کو کشمیر کا نام لیتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے؟ ان کی کشمیر سے کمٹمنٹ کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین اور منظور وٹو کو وزیر کشمیر بنا دیا ہے۔ دونوں حضرات نے کشمیر کے لئے اب تک کیا کیا ہے؟ وٹو صاحب دس پندرہ ساتھیوں کو لے کر جوڑ توڑ کر کے وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے تھے۔ وہی جوڑ توڑ آزاد کشمیر میں کرتے ہوئے حکومتیں تڑوا اور بنوا رہے ہیں۔ حضرت مولانا جن کے آباءقیام پاکستان کے مخالف تھے۔ ان کے ابا حضور نے تو یہاں تک فرما دیا ”شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے“ جے یو آئی ف نے قیام پاکستان کی مخالفت کے حوالے سے اپنے آباءکے ترکے کو ترک کیا ہے؟ وکی لیکس رپورٹ کہتی ہے مولانا نے امریکی سفیر کو دعوت پر گھر بلا کر عرض کیا تھا کہ ان کے لئے وزارتِ عظمٰی کے دروازے کھولے جائیں۔ مولانا وکی لیکس رپورٹ کی تردید، ان کے دستِ راست عبدالغفور حیدری پیٹرسن سے مکالمے کی تصدیق فرما رہے ہیں۔ ویسے بھی وکی لیکس رپورٹ کا ہر وہ کردار تردید کر رہا ہے جو اس کی زد میں ہے۔ امریکہ رپورٹس کی تردید نہیں، افشا پر معذرت اور آئندہ ایسی کوتاہی نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ اس مسئلے پر تین جنگیں اور کارگل کی شکل میں ایک مہم جوئی ہو چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کا تنازع نہ ہو تو بھارت کو اسلحہ کے انبار لگانے کی ضرورت ہے نہ پاکستان کو جوابی تیاریوں پر بڑا دفاعی بجٹ مختص کرنے کی۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ ہم یہ معاملہ کشمیر پر یو این کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کے ذریعے طے کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت جب چاہتا ہے مذاکرات کی میز پر پاکستان کو بلا بھیجتا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ مذاکرات کس ایجنڈے اور بات پر ہونگے۔ وزیر خارجہ اور دیگر حکام کچے دھاگے سے بندھے چلے جاتے ہیں۔ بھارت کے مذاکرات مسئلہ کشمیر پر ٹال مٹول کا شاخسانہ اور پاکستانی حکام کے لئے ٹی اے ڈی اے کا ایک بہانہ ہے۔ آج کشمیریوں کی تحریک پھر زوروں پر ہے۔ ہر روز ہڑتال ہوتی ہے۔ احتجاج ہوتا ہے۔ سات لاکھ بھارتی فوجیوں کے مظالم میں مزید شدت آ گئی ہے۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ عزت مآب کشمیر کی بیٹیوں کی ردائیں محفوظ ہیں نہ آنچل سلامت۔ کشمیری آج اس جذبے اور ولولے سے اٹھے ہیں کہ بھارتی فوج گولیاں چلاتے چلاتے تھک گئی ہے ان کا آرمی چیف وی کے سنگھ کہتا ہے تحریک آزادی کو روکنا فوج کا کام نہیں، مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ سیاسی حل تو اقوامِ متحدہ نے کشمیریوں کیلئے حق استصواب کی صورت میں تجویز کر دیا ہوا ہے۔ اس سے بھارت 62 سال سے مسلسل راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔ ”بھارتیو کشمیر چھوڑ دو“ تحریک کو کشمیری 6 ماہ سے اپنے خون سے سینچ رہے ہیں۔ کشمیریوں نے آزادی کے لئے اپنا حق ادا کر دیا۔ اس تحریک کے ساتھ پاکستان کی طرف سے عالمی سطح پر سفارتی میدان میں ایک طوفان برپا کر دینا چاہئے تھا۔ وزیر خارجہ، ان کی وزارت کو متحرک، کشمیر کمیٹی کو سرگرم اور وزیر کشمیر اور وزارت کشمیر کو سرگرداں ہونا چاہئے تھا۔ بدقسمتی سے وزیر خارجہ کشمیر پر ثالث، چیئرمین کشمیر کمیٹی اپنے لئے وزارت عظمٰی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ صدر صاحب اپنے ساتھیوں پر انعام و اکرام کی بارش ضرور برسائیں۔ کشمیر کے حوالے سے تو سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ اسی کشمیر کی خاطر ان کے سُسرِ محترم نے فرمایا تھا کہ کشمیر پر ہزار سال بھی جنگ لڑنا پڑی تو لڑیں گے، گھاس کھا لیں گے کشمیر کو آزاد کرا کے رہیں گے۔ اگر اور کچھ نہیں تو ساڑھے تین سو پارلیمنٹیرینز میں سے دو بندے ایسے ڈھونڈ لیں جو کشمیر کے حوالے سے کمٹڈ ہوں۔ روٹی روزی چلانے کے لئے حضرت مولانا کو بے شک وزارت ڈیزل و پٹرولیم اور وٹو صاحب کو وزیر حج لگا دیں۔

No comments:

Post a Comment