جمعۃالمبارک ، 24 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
وہ کیسے انسان ہونگے، پتھر دل، انسانیت سے تہی، احساسات و جذبات اور شفقتِ پدری سے عاری، جو بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ وہ ایسا کرنے کی کہاں سے جرأت و ہمت لے آتے تھے۔ ہم تو بیٹی کو پریشان دیکھ کر بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں۔ ڈولی اٹھتی ہے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایک فرض سے سبکدوش ہو گئے۔ جِسے خونِ جگر دیکر پالا، ناز نخرے اٹھائے، وہ بھی اماں اور بابا پر جان و دل سے فدا ہوتی، اس کے بچھڑنے پر بلک بلک کر روتے ہیں۔ جہیز کے نام پر ہمت ہے یا نہیں جو کچھ بھی ممکن ہے، پیاری بیٹی کے سسرال پہنچا دیتے ہیں۔ بیٹے کو نعمت اور بیٹی کو رحمت قرار دیا جاتا۔ جب یہی رحمت، جہیز کم لانے کی پاداش میں تیل چھڑک کر جلا ڈالی جاتی ہے، گولی مار کر قتل کر دی جاتی ہے۔ سوختہ اور زخموں سے چور میت جب اسی دہلیز پر پہنچتی ہے جہاں سے چند دن یا کچھ عرصہ قبل سرخ جوڑے میں رخصت ہوئی تھی تو والدین، بہن بھائیوں اور عزیزوں رشتہ داروں پر غم دکھ اور درد کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان کی زندگی کی خوشیاں اور رعنائیاں بیٹی کے ساتھ ہی دفن ہو جاتی ہیں۔ کیا بیٹی والوں کو اس کی سزا دی جاتی ہے کہ انہوں نے بیٹی کو پال پوس کے دوسرے خاندان پر اعتماد اور اعتبار کر کے ان کے حوالے کر دیا۔ دلہن کو لے جانے والوں کو بھی ایک عورت نے جنم دیا۔ اس خاندان میں بھی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ پھر یہی سزا کی مستحق کیوں؟ کیا اس کی بھی ویسی ہی جان نہیں جیسی باقی گھر والوں کی ہے۔ کیا گھر میں نئی آنیوالی لڑکی کوئی مشین ہے مٹی کا مادھو یا روبوٹ جِسے بے دردی سے توڑ دیا جاتا ہے۔ شاید بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والے حق بجانب تھے۔
مریدکے میں جو ہوا اس سے زمین کانپ گئی۔ آسمان لرز گیا۔ دلہا میاں نے جہیز میں کار نہ لانے پر دلہن کو گھر سے نکال دیا۔ والدین نے نئی موٹر سائیکل لے دی تو دلہا میاں اسی پر اہلیہ کو گھر لے گئے۔ دل میں کار کی تڑپ اور امنگ لہراتی رہی پھر انسانیت دم توڑ گئی آنکھوں کے سامنے لالچ اور حرص کا اندھیرا چھا گیا۔ ریوالور نکالا حافظہ اہلیہ نماز ادا کر رہی تھی۔ سجدے میں گئی تو فائرنگ کر کے کسی کے جگر کی بوٹی اور دل کے ٹکڑے کو خون میں نہلا کر ڈکیتی کا ڈرامہ رچانے کے لئے خود کو بھی زخمی کر لیا۔ کیا ایسا کرنے سے اسے کار مل گئی؟ مریدکے کا مذکورہ بہیمانہ قتل ہمارے معاشرے کی بے حسی کی علامت ہے۔ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جہیز کی کمی پر دوسروں کی بیٹوں کو طعنے دینے، ان پر تشدد اور قتل تک کر ڈالنے والے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو جہیز میں کتنی کاریں دیتے ہیں؟ چولہا پھٹنے سے بہو ہی کیوں مرتی ہے۔ گھر کی بیٹی کیوں نہیں؟
جہیز لعنت نہیں، سنتِ نبوی ہے۔ والدین آسانی سے اپنی بیٹی کو جو دے سکتے ہیں دیں اسکی نمائش ہو نہ سسرالیوں کی جانب سے مطالبہ۔ لعنت تو اس سوچ پر ہے جو جہیز کے نام پر گھر بھرنا چاہتے ہیں۔ اس میں بعض معاملات میں لڑکی کے والدین کا بھی قصور ہے جو سسرالیوں کے مطالبات مانتے ہیں۔ یہ عموماً ان حالات میں ہوتا ہے جب قریبی رشتہ داروں کو اپنے معیار سے کم تر سمجھتے ہوئے انجان لوگوں میں شادی کر دی جاتی ہے۔ لڑکے یا لڑکی کی شادی کے سلسلے اکثر دھوکہ اور فراڈ ہو جاتا ہے۔ باہر کے رشتوں کے شوق نے کئی خاندان برباد کر دئیے ہیں۔
شادیوں میں فراڈ دھوکہ دہی، تشدد اور قتل کے مقدمات عدالتوں میں جاتے ہیں تو شریف آدمی ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ کسی مجرم کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے ہمارا قانون بہترین ہے۔ ہمارے قوانین جتنے بے مثال ہیں وہیں ان پر عملدرآمد کرانے والے باکمال ہیں۔ دھوکہ دہی فراڈ اور دکھ درد سے بچنے کے لئے جہاں اعلیٰ خاندانوں کے ساتھ جڑنے کی خواہش پر قابو پانا وہیں رشتوں سے قبل مقابل خاندان کی چھان بین بھی ضروری ہے۔ جھٹ منگنی پٹ ویاہ سے بھی بہت سی خرافات جنم لیتی ہیں۔ معاشرتی برائیوں کے قلع قمع کے لئے عدلیہ کا کردار بڑا اہم ہے۔ لیکن افسوس کہ عدالتی سسٹم میں ججوں کو بے بہا مراعات کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ ماتحت عدلیہ تو بالکل بے مہار ہے اور بدستور ہے۔ معاشرے میں جرائم کے فروغ میں جتنا پولیس کی مجرمانہ ذہنیت کا عمل دخل ہے عدلیہ کا اس سے کسی صورت کم نہیں۔ عدلیہ کا سسٹم درست اور آئیڈیل ہو جائے تو جرائم کا خاتمہ اور دلہنوں پر تشدد ان کے قتل اور جلائے جانے کے واقعات کا کافی حد تک خاتمہ ہو سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment