فضل حسین اعوان 10-12-12
ایک پیسٹی سائیڈ ملٹی نیشنل کمپنی کے پاکستانی ورکر قصور کے نواح میں فصلوں کا جائزہ لیتے ہوئے کسانوں کو مشورے دے رہے تھے۔ سامنے خاردار تاروں کی باڑ نظر آئی تو پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان بھارت سرحد ہے۔ دونوں نوجوان پہلی بار بارڈر کے نزدیک آئے تھے۔ اشتیاق ہوا کہ پاکستان بھارت بارڈر کو قریب سے دیکھا جائے۔ باڑ کے ساتھ دو کسان بھینسیں اور گائیں چرا رہے تھے۔ پیسٹی سائیڈ کمپنی کے ملازم ان کی طرف قدم بڑھاتے چلے گئے۔ دل ہی دل میں یہ سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ واپس جا کر گاﺅں میں والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں کو کہانیاں سنائیں گے کہ بارڈر پر کھڑے ہو کر ہندوستان دیکھا۔ بارڈر‘ باڑ‘ اور ہندوستان کیسا لگا سب بتائیں گے۔ چند منٹ میں باڑ کے چند گز فاصلے پر پہنچے تو مویشی چراتے کسانوں سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ کسانوں کے ہاتھ کی گرفت معمول سے زیادہ مضبوط اور سخت تھی۔ ہاتھوں میں ہاتھ تھامے ہوئے ہی ایک کسان نے کہا
I am inspector Sharma of Indian BSF both of you are under arrest
یہ سنتے ہی پاکستانی نوجوانوں کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اس کے بعد اگلا سوال تھا ”تم یہاں کیا لینے آئے ہو اور کس نے بھیجا ہے؟ نوجوان اپنی صفائی میں جو کچھ کہہ سکتے تھے کہا، بی ایس ایف والوں نے ماننا تھا نہ مانے۔ نوجوانوں کے لئے پریشانی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ باڑ کے دوسری طرف انڈیا ہے۔ انڈین بی ایس ایف کا ادھر کیا کام؟ بہرحال تلخ حقیقت یہی تھی کہ دونوں پاکستانی بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کی حراست میں تھے۔ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ وزٹ ویزے پر گئے پاکستانی بھارت سے صحیح سلامت واپس نہیں آتے، ان پر تو انسپکٹر شرما نے جاسوسی کا الزام بھی لگا دیا تھا۔ ہاتھ چھڑا کر دونوں نوجوان کوشش کرتے تو بھاگ سکتے تھے لیکن ان کو چیک پوسٹ پر بیٹھے بھارتی فوجیوں کی ان کا نشانہ لئے ہوئے گنیں نظر آ رہی تھیں۔ جائے رفتن، نہ پائے ماندن۔ اسی کشمکش میں دور سے ایک نوجوان ان کی طرف بھاگتا ہوا نظر آیا۔ نزدیک آ کر اس نے رینجرز کے حوالدار کے طور پر اپنا تعارف کرایا۔ نوجوانوں سے ان کی آپ بیتی سنی، جو اسے یہ بے قصور نظر آئے۔ بی ایس ایف والوں سے ان کو چھوڑنے کی درخواست کی۔ وہ کچھ سننے اور ماننے پر تیار نہ تھے۔ ان کو یقین دلایا اور جنٹل مین پرامز کیا کہ ہماری انوسٹی گیشن میں یہ قصور وار نکلے تو آپ کے حوالے کر دیں گے۔ بڑی مشکل سے بی ایس ایف والے مانے۔ آدھے گھنٹے بعد ان کے ہاتھوں سے گرفت ڈھیلی کی اور رینجرز کے حوالدار کے حوالے کر دیا۔ رینجرز نے مکمل انوسٹی گیشن کے بعد، ان کے فون نمبرز اور ایڈریس لے کر دونوں کو چھوڑ دیا۔پاکستان کی چین کے ساتھ سرحد کی لمبائی 592‘ ایران کے ساتھ 805‘ افغانستان کے ساتھ 2252 اور بھارت کے ساتھ 1600 کلومیٹر ہے۔ بھارت نے سرحد پر اپنی طرف خاردار تاروں کی باڑ لگا کر جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کر لی ہیں اور چپے چپے پر لائٹیں لگا دی ہیں۔ ہماری طرف سرحد پر رینجرز تعینات ہے جس کی فاصلے فاصلے پر چوکیاں ہیں۔ بھارت نے باڑ لگاتے ہوئے پاکستان کی طرف دو ایکڑ جگہ چھوڑی ہوئی ہے جہاں بھارتی کسان بی ایس ایف کی نگرانی میں ہل چلاتے پانی لگاتے کاشت کاری کرتے اور بھینس گائے بھیڑ بکریاں چراتے ہیں۔ پاکستان کی طرف ایک کتا اور بلی بھی باڑ کراس کرکے بھارت کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بھارتی ایجنسیاں مکمل طور پر آزاد ہیں کہ 1600 کلومیٹر کے علاقے میں جہاں سے چاہیں باڑ کے پار آ کر اپنے رقبے میں جو چاہیں کریں۔ وہ کر بھی رہے ہیں۔ بارڈر پار شراب، اسلحہ اور دہشت گرد پہنچا دینا بی ایس ایف، بھارتی فوج اور را کے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ادھر پاکستان کی طرف سرحد پر بیٹھے سارے کسان اور کاشتکار ایمان کے پکے اور قول کے سچے نہیں۔ بھارت کو صرف تین چار فیصد بھی اپنے مطلب کے لوگ مل جائیں تو پورا پاکستان بارود کا ڈھیر بن سکتا ہے۔ ایسا بھی ہو رہا ہے۔ پاک فوج نے کبھی دفاع پر کمپرومائز کیا نہ قوم نے دفاعی معاملات میں کبھی کنجوسی کی۔
پھر پاکستان کی طرف سے بارڈر غیر محفوظ کیوں؟ جس کے باعث پورا وطن دشمن کے نشانے پر ہے۔ بھارت آبادی، رقبے، فوج اور اسلحہ کے حوالے سے پاکستان سے کئی گنا بڑا ہے اوپر سے عیار اور مکار بھی۔ اس کا مقابلہ کرنے کےلئے تو ہماری طرف سے کئی گنا زیادہ انتظام اور اہتمام کی ضرورت ہے۔ سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے ہم اس سے کئی گنا پیچھے ہیں۔ اب اس کا ازالہ کیا جائے۔ آج جہاں آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان بھارت کی طرف سے لگائی گئی باڑ گرانے‘ وہیں پاک بھارت سرحد پر اپنی طرف باڑ لگانے کی ضرورت ہے۔ قوم آر جی ایس ٹی کے نام پر ایک پیسہ دینے کو تیار نہیں کیونکہ سب بڑے پیٹوں میں چلا جائے گا۔ فوج عوام سے باڑ لگانے کیلئے فنڈز کیلئے کہے تو یقین کیجئے مرد و زن نوٹوں اور زیورات کے ڈھیر لگا دیں گے۔ اس نہ صرف پاکستان بھارت
سرحد پر باڑ لگائی جا سکی بلکہ ڈیورنڈ لائن کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا۔
سرحد پر باڑ لگائی جا سکی بلکہ ڈیورنڈ لائن کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا۔
No comments:
Post a Comment