: پیر ، 13 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان
کوئی بھی ملک معیشت، معاشرت، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری اور باقی دنیا سے بے نیازی کا دعویٰ اور مظاہرہ نہیں کر سکتا، حتیٰ کہ سپر پاور امریکہ بھی نہیں۔ امریکہ کا جدید اسلحہ سازی میں ایک مقام ہے اس کے باوجود امریکہ نے گزشتہ سال کروشیا سے پہلے مرحلے میں 19 ہزار روسی ساختہ اے کے 47 کلاشنکوفیں خریدنے کا معاہدہ کیا۔ افغانستان میں امریکی فوجی ایم 16 رائفل استعمال کرتے ہیں جو معمولی سی ریت پڑنے پر کام چھوڑ دیتی ہیں جبکہ اس علاقے میں کئی دہائیوں سے کلاشنکوف کی بہترین کارکردگی چلی آ رہی ہے۔
کروشیا وسطی یورپ کا چھوٹا سا ملک ہے جہاں جمہوریت اپنی اصل روح کے مطابق بغیر کسی آلائش اور منافقت کے رائج ہے۔ جہاں ایو سنیڈر 2003ء سے 2009ء تک وزیراعظم رہے۔ انہیں جولائی 2009ء میں کرپشن کے الزامات پر استعفیٰ دینا پڑا۔ ان الزامات میں کسی دوسرے ملک میں غیر قانونی اکاؤنٹ کھولنے کا الزام فرانس برطانیہ یا کسی اور ملک میں جائیدادیں بنانے، کاروبار چلانے یا محلات تعمیر کرانے کا، کروڑوں وصول کر کے عہدے بانٹنے کا نہ رینٹل پاور پلانٹس سے اربوں کا کمشن مارنے کا۔ ان پر اپنے دور میں پارٹی کے لئے فنڈز جمع کرنے کا الزام تھا جسے غیر قانونی قرار دیا گیا۔ کرپشن کے الزام پر ایو سنیڈر وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوئے تو ان کو کروشین ڈیموکریٹ اتحاد نے پارٹی سے بھی نکال دیا۔ 9 دسمبر کو سرکاری پراسیکیوٹر نے پارلیمنٹ سے وزیراعظم کا استثنیٰ ختم کرنے کی درخواست کی، اس پر تمام 104 پارلیمنٹرین نے متفقہ فیصلہ دیا۔ وزیراعظم کا استثنیٰ ختم ہوا تو کروشیا حکومت کی طرف سے سابق وزیراعظم ایو سنیڈر کے عالمی گرفتاری وارنٹ جاری کر دیے گئے۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح ایو سنیڈرکی بھی دوسرے ملک کی شہریت اور وہاں کاروبار تھا۔ استثنیٰ ختم ہوتے ہی وہ آسٹریا چلے گئے جہاں بھی جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ آسٹریا میں عالمی وارنٹ گرفتاری کی اطلاع پہنچی تو ایو سنیڈر کو گرفتار کر لیا گیا۔ آسٹریا کی وزارتِ انصاف نے کروشیا حکومت کو گرفتاری کی اطلاع دیتے ہوئے اپنا ملزم لے جانے کو کہا ہے۔ استثنیٰ کا خاتمہ، وارنٹ کا اجراء اور گرفتاری یہ تمام عمل صرف 48 گھنٹے میں مکمل ہو گیا۔
ہمارے ملک میں تمام تر مسائل، مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، بہت سی اشیاء کی قلت، ذخیرہ اندوزی، تعلیم و صحت کی سہولتوں کی عدم فراہمی، رشوت، چوری ڈکیتی اور رہزنی کی ایک ہی وجہ کرپشن ہے۔ ایک طرف غربت و افلاس کی وجہ سے سسکتی انسانیت دوسری طرف لوٹ مار سے دولت کے انبار، بے حد و بے حساب، غریب کے خون پسینے کی کمائی سے چمکتی لشکتی لاکھوں کروڑوں روپے کی گاڑیاں اربوں روپے سے تعمیر شدہ محلات و ماڑیاں۔ پاکستان میں ایک صرف کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو ملک خوشحال، معاشرہ نہال اور تمام تر قرضوں سے نجات اور خلاصی ہو سکتی ہے۔ کرپشن زیادہ سے زیادہ کی سزا بھی 14 سال ہے اس پر بھی کہیں عمل ہوتا ہے کہیں نہیں، عموماً پولیس کا سپاہی اور محکمہ مال کا پٹواری پکڑا جاتا ہے لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کھربوں روپے کی لوٹ مار کرنے والے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر پکڑے جائیں تو پکڑنے والے سے چھڑانے والے زیادہ طاقتور ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اعجاز چودھری نے کرپشن کا حل سزائے موت تجویز کیا ہے۔ اس کے لئے نیب کو پارلیمنٹ سے قانون سازی کی درخواست کرنا پڑے گی جس طرح کروشیا کے پراسیکیوٹر نے پارلیمنٹ سے وزیراعظم کا استثنیٰ واپس لینے کی درخواست کی تھی۔ پاکستان میں گو کم ہی سہی بااصول اور باضمیر پارلیمنٹرین موجود ہیں۔ کرپشن پر سزائے موت کا بل آیا تو کرپٹ اور حرام خوروں کے لئے بھی اس کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ قانون منظور ہونے کی صورت میں پرانی کرپشن کی ریکوری کی صورت میں جاں بخشی کر دی جائے۔ قانون سازی کے بعد کرپشن کرنے والے کو لٹکایا جائے۔ معاملہ اوپر سے شروع کر کے نیچے تک لایا جائے۔ اب اس سوال کی ضرورت نہیں کہ قانون پر عمل کون کرائے گا۔ آج عدلیہ آزاد بھی ہے اور فعال بھی، غیر جانبدارانہ اور جرأت مندانہ فیصلے کر سکتی ہے تو ان پر عمل بھی کرا سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment