About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, December 8, 2010

بھارت میں تین ہزار مساجد، مزارات گرانے کا حکومتی منصوبہ

بدھ ، 08 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
بھارت سیکولر سٹیٹ ہے۔ بھارتی دانشوروں کے نزدیک بھارتی سیکولرزم لغت اور مغرب کی روایات کے مطابق مذہب کی ضد اور دہریت کے ہم معنی نہیں بلکہ اس کا مطلب مذہبی عدم مداخلت ہے۔ فرد کو مذہب کی مکمل آزادی ہے۔ ریاست کسی مذہب کی پابند نہیں۔ بھارتی دانشور یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارتی سیکولرزم مساوات، عدم امتیاز، اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی آزادی سے عبارت ہے اور یہاں سیکولرزم Humanism کے ہم معنی ہے------سیکولرزم کے بارے میں بھارتی دانشور جو کچھ کہتے ہیں اس سے سیکولرزم کا ایک خوبصورت اور دلکش تصور ابھرتا ہے لیکن بھارت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ صرف لفاظی اور مفروضہ ہے۔ اس کا حقیقت سے دور دور تک بھی تعلق نہیں۔ چند سال قبل ممبئی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس دھرما دھیکاری نے انجمن اسلام ممبئی میں لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا ’’سیکولرزم کے معنی الحاد نہیں بلکہ آئین ہند کے مطابق ہر مذہب کو یکساں احترام دینا ہے۔ عملی طور پر بھارت میں سیکولرزم قطعاً رائج نہیں، مغربی تعریف کے مطابق نہ بھارتی دانشوروں کے دعوئوں کے مطابق۔ عملاً بھارت ہندو سٹیٹ ہے۔ انتہا پسند ہندو سٹیٹ۔ جہاں اقلیتوں کو گائے کے برابر بھی احترام نہیں دیا جاتا۔ بھارت میں سب بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ انتہا پسند ہندوئوں کے جبر کا نشانہ بھی زیادہ تر مسلمان ہی بنتے ہیں۔ دنیا میں سکھوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے ان میں سے 60فیصد بھارتی پنجاب میں بستے ہیں یہ بھی ہندو توا کی نفرت سے محفوظ نہیں۔ تیسری بڑے اقلیت عیسائیوں کا بھی سر پھرے شدت پسند ہندئوں نے ناطقہ بند کر رکھا ہے۔
تقسیم ہند سے قبل جنونی ہندوئوں کے متعصبانہ رویے کے باعث ہی مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے لیے تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ جسونت سنگھ نے اپنی تازہ تصنیف میں اعتراف کیا ہے کہ ہندو رہنمائوں کا جناح کے ساتھ رویہ انتہائی متعصبانہ تھا اسی رویے نے جناح کو کانگریس سے علیحدگی پر مجبو کیا ورنہ جناح تو ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے-----تقسیم ہند کے بعد بھی ہندو انتہا پسندوں کے رویے میں مقامی اور پاکستان کے مسلمانوں کے خلاف رویے میں تبدیلی نہیں آئی بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھارت میں موجود مسلمانوں پر ایک پلاننگ کے تحت مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ نہ صرف بھارتی بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کے لیے ہندو جنونی اور انتہا پسند تنظیمیں مساجد اور مزارات کو بلا جواز شہید کر دیتی ہیں۔ ان جنونیوں کی کارروائیوں کے پیچھے حکومت کی مکمل حمایت اور پشت پناہی ہوتی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کو 6 دسمبر کو 18 سال مکمل ہو گئے۔ اس قضیے میں چھ ہزار مسلمان شہید 15 ہزار زخمی ہوئے تاہم لوک سبھا نے اڑھائی ہزار مسلمانوں کی شہادتوں کا اعتراف کیا ہے۔ زیادہ تر مسلمان پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اگلا نشانہ بنارس اور متھرا کی مساجد ہیں۔ صرف یہی نہیں دیگر تین ہزار مساجد پر بھی ہندو شرپسندوں کی نظر ہے۔ بابری مسجد کو شہید کرنے میں ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ آر ایس ایس کا ہاتھ تھا۔ اس سازش میں بی جے پی کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی ایل کے ایڈوانی اور مرل منوہر جوشی پیش پیش تھے۔ حکومتی آشیرباد اور سرپرستی کے باعث6 دسمبر1992ء کو بی جے پی اور وشواہندو پریشد کے رہنمائوں کی موجودگی میں بابری مسجد کو جنونی ہندوئوں نے شہید کیا حالانکہ مسجد کے تنازع کے حوالے سے کیس عدالت میں تھا۔ سیکولر انڈیا جہاں آئین اور قانون کے مطابق ریاست کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ 28 ستمبر 2010ء کو بابری مسجد کے حوالے سے الہ آباد کی ہائیکورٹ نے بابری مسجد کے حوالے سے جو فیصلہ دیا وہ ہندو بنئے کا مسلمانوں اور اسلام سے تعصب کا شاخسانہ ہے۔ مسجد کے تین حصے کر دئیے گئے۔ ایک مسلمانوں کو دیا گیا دو مندر اور اکھاڑے کے لئے مختص کر دیئے گئے۔ 
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پرتشدد جرائم میں آر ایس ایس، وی ایچ پی، بجرنگ دل، بی جے پی اور ان کی ذیلی تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ ان کو ہر بھارتی حکومت اور ’’را‘‘ کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ یہی تنظیمیں مساجد اور مزارات کو شہید کرنے میں ہراول دستہ کا کام کرتی ہیں۔ اب حکومتی پالیسی کے تحت تین ہزار مساجد اور مزارات پر سرخ دائرہ لگا دیا گیا ہے۔ ابتدا کرناٹک سے کی جائے گی۔ 500 مساجد اور مزارات31 دسمبر2010ء تک شہید کئے جانے کا سرکاری سطح پر ہدف مقرر کیا گیا ہے کچھ کو یہ کہہ کر گرایا جائے گا کہ یہ غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ ہیں اور کچھ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کو مندروں کی جگہ تعمیر کیا گیا ہے۔ اندرا گاندھی کے دور حکومت میں بس سٹاپس ، ریلوے سٹیشنوں، سنیمائوں سڑکوں، عوامی مقامات، سرکاری اراضی اور تعلیمی اداروں میں بغیر اجازت تعمیر ہونیوالی عبادت گاہوں کو بھارتی سپریم کورٹ نے گرانے کا حکم دیا تھا۔ اس کی زد میں سب سے زیادہ مندر آتے تھے لیکن موجودہ حکومت نے مندروں کے سوا باقی عبادت گاہوں، مساجد، گرجائوں اور سروپوں کو ہدف بنایا ہے۔ بھارتی اخبارات ٹائمز آف انڈیا اور دکن کرانیکل کے مطابق کرناٹک حکومت نے جن 500 مساجد کو شہید کرنے کا اعلان کیا ہے انہیں مسلمانوں نے زمینیں لیز پر لیکر اپنے اخراجات سے تعمیر کیا ہے۔ تاہم یہ مساجد عرصہ سے انتہا پسند ہندوئوں کے نشانے پر تھیں۔ جنہیں خوش کرنے کیلئے گرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ گجرات، اڑیسہ، آندھرا پردیش، تامل ناڈو، راجستھان اور کیرالہ کی ریاستی حکومتوں کی طرف کرناٹک نے بھی 31 دسمبر2010ء تک غیر قانونی عبادتگاہوں کو گرانے کا حلف نامہ سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ یہ ریاستی سروے کے مطابق گرائی جانے والی عبادت گاہوں میں 50 گردوارے، 10 سٹوپا اور 125 چرچ بھی شامل ہیں۔ مذکورہ بھارتی اخبارات کے مطابق ہر بھارتی ریاست میں مساجد کو شہید کرنے کا ایک اور حربہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے کہ شہروں کے مضافات اور دیہات میں ترقیاتی منصوبہ بندی اس طرح کی جاتی ہے کہ مساجد سڑکوں کے درمیان یا انتہائی قریب ہو جاتی ہیں پھر سڑک کی روانی میں رکاوٹ قرار دیکر شہید کر دیا جاتا ہے۔ اس حربے میں ریاست گجرات سب سے آگے ہے۔ 
اقلیتوں کی عبادت گاہیں گرانا ایک ظلم انسانیت سوز اقدام اور انسانی جذبات کو مجروح کرنا ہے۔ کیا امریکہ اس کے یورپی اتحادی بھارت کے اس ظالمانہ اقدام پر اس لئے خاموش ہیں کہ زیادہ تر ٹھیس مسلمانوں کے جذبات کو پہنچ رہی ہے؟ جانوروں کے حقوق تک کا واویلا کرنے والی این جی اوز اور بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر کے تعلقات قائم کرنے کے متمنی اور خواستگار کہاں ہیں؟ اب ان کو انسانی حقوق کی بدترین پامالی کیوںنظر نہیں آ رہی؟ حکومت پاکستان مساجد کی مسماری کے منصوبے پر کیوں خاموش ہے؟ حکومت کی طرف سے بھی اس پر شدید ردعمل آنا چاہئے۔ کسی بھی ظلم و زیادتی کی صورت میں بھارتی مسلمانوں کی نظریں پاکستان پر لگی ہوتی ہیں۔ عملی نہ سہی پاکستان ان کی اخلاقی اور سفارتی ممکنہ حد تک مدد تو کر سکتا ہے۔


No comments:

Post a Comment